Type Here to Get Search Results !

کیا حضرت ابو بکر نے باغ فدک حضرت فاطمہ کو دینے سے انکار کر دئے؟

 (سوال نمبر 6044) 
کیا حضرت ابو بکر نے باغ فدک حضرت فاطمہ کو دینے سے انکار کر دئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
 حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو باغ تھا اس حوالے سے تسلی بخش جواب عنایت فرمایا دیں کہ کیا آپ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئی تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ دینے سے انکار کر دیا تھا؟؟ نیز کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے کو آگ لگوائی تھی؟؟؟
 گروپ کن فیکون سائلہ کا نام میمونہ شہر کا نام مظفر گڑھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 
 (1) باغ فدک خیبر فتح ہونے پر وہ مال غنیمت ہے جو آقا علیہ السلام نے اپنے زیر تصرف رکھا آقا علیہ السلام 
جب پردہ فرما گئے تو حضرت فاطمہ کو لگا اب مجھے وراثت میں ملنی چاہیے پھر خلیفہ حضرت ابوبکر سے مطالبہ کی پھر حضرت ابوبکر نے حدیث سنائی کہ انبیاء کے مال میں وراثت نہیں پھر جس طرح جس کام میں آقا علیہ السلام باغ کی امدنی صرف کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا حضرت فاطمہ سمجھ گئی۔اور مطالبہ چھوڑ دی حدیث پاک سن کر۔
  (2) حضرت عمر نے حضرت فاطمہ کے گھر کو اگ لگائی یہ شیعہ کی من گھڑت کہانی ہے یہ بات 100 غلط ہے 
اہل تشیع یہی غلط سلط کہانی سنا کر کہ باغ نہیں دیا تو حضرت عمر نے زیادتی کی سنیوں کے ذہن کو پرا گندہ کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے 
جب خیبر فتح ہوا بہت سارا مال غنیمت فرزندان توحید کے ہاتھ آیا ان میں سے ایک باغ بھی تھا جو فدک کے مقام پر تھا جس کو اصطلاح شرع میں باغ فدک کہا جاتا ہے اسے حضور اکرم صلي الله عليه وسلم نے اپنے زیر تصرف رکھا اور آپ اس کی آمدنی بنو هاشم اہل خانہ غریبوں أصحاب صفہ وغیرہم اور شادی کے لائق افراد کے نکاح پر خرچ کرتے رہے.
ایک مرتبہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض گزار ہوئیں کہ وہ باغ حضور اکرم صلي الله عليه وسلم انہیں عطا فرمادیں لیکن حضور اکرم صلي الله عليه وسلم نے دینے سے منع فرمایا اوراپنی پوری ظاہری زندگی اسی پر کاربند رہے یہاں تک کہ آپ کا وصال جانکاہ ہو گیا۔
آپ کے بعد جب پیکر صدق وصفاحضرت ابو بكر رضي الله عنه نے والی امت ہوئے وہ بھی اسی خرچ جس پر آقا صلي الله عليه وسلم کار بند رہے کاربند رہے یہاں تک کہ انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔
اور جب مراد رسول ہم زبان نبی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ والی ہوئے کہا تو وہ بھی اپنے دونوں پیش رو با قدر باوقار باعظمت شخصیات ستودہ صفات کے منہج مکرم پر عمل کیا اور پوری زندگی اسی پر رہے حتی کے انہوں نے بھی اس جہان فانی کو تج کردیا۔
اس باغ کا معاملہ ایسے ہی رہا یہاں تک کہ مروان نے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کی آمدنی سے فائدہ اٹھایا ۔
پھر جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضي الله عنه کا دور پرعدل و انصاف آیا تو آپ نے اس وقت موجود با اثر اصحاب رائے افراد کو جمع فرما کر ان سے فرمایا ۔
فرأيت امرا منعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة ليس لي بحق واني اشهدكم اني قد رددتها علي ماكانت يعني علي عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
 تو میں نے (باغ فدک کا) ایسا معاملہ دیکھا کہ حضور اکرم صلي الله عليه وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو منع فرما دیا تھا پس اس میں میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں آپ حضرات کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس(باغ فدک) کو اسی حالت پر لوٹا دیتا ہوں جس پر عہد رسالت مآب صلي الله عليه وسلم میں تھا (ابوداؤد. كتاب الفيئ. ص. 415)
اور تاریخ کی أوراق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ذو الهجرتين و ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھرباب العلم شیر خدا فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر سروران نو جوانان اہل جنان حسنین کریمین کے قبضے میں آیا۔ پھر علی بن امام حسين اور حسن بن امام حسن کے قبضے میں آیا پھر زید بن امام حسن بن علی مرتضیٰ رضي الله عنهم أجمعين کے قبضے آیا ان سب با عظمت لائقِ صد احترام شخصیات نے اپنے پیش رو کے طریقے کو ہی اس باغ کے بارے میں اختیار کیا۔
لیکن جب مروانیوں کے زیر تسلط آیا توانہوں نے من چاہا معاملہ تک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضي الله عنه کا دور پر بہار آیا تو انھوں نے مروانیوں کے اندازِ بد کو ختم کیا اور سنت مصطفے ﷺ کو دوبارہ زندہ کیا یہ موقف اہل سنت و جماعت کا ہے جو کہ حق اور عین شریعت کے موافق ہے۔
(3) مگر اہل تشیع کہتے ہیں 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیا تھا جسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں غصب کر لیا۔جبکہ یہ جھوٹ و افترا ہے 
مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
بعض حصۂ زمین جو کفار نے مغلوب ہو کر بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا ان میں سے ایک فدک بھی تھا جس کی آمدنی حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال ازواج مطہرات وغیرہ پر صرف فرماتے تھے اور تمام بنی ہاشم کو بھی اس کی آمدنی سے کچھ مرحمت فرماتے تھے۔ مہمان اور بادشاہوں کے سفراء کی مہمان نوازی بھی اس آمدنی سے ہوتی تھی۔ اس سے غریبوں اور یتیموں کی امداد بھی فرماتے تھے۔ جہاد کے لیے سامان تلوار، اونٹ اور گھوڑے وغیرہ اسی سے خریدے جاتے تھے اور اصحاب صفہ کی حاجتیں بھی اس سے پوری فرماتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فدک اور اس قسم کی دوسری زمینوں کی آمدنی مذکورہ بالا تمام مصارف کے مقابلہ میں بہت کمی تھی اسی سبب سے بنی ہاشم کا جو وظیفہ حضور نے 
مقرر فرما دیا تھا وہ زیادہ نہیں تھا اور سیّدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا جو حضور کو حد سے زیادہ پیاری تھیں مگر آپ کی بھی پوری کفالت نہیں فرماتے تھے جس سے ثابت ہوا کہ اس قسم کی زمینوں کی آمدنی مخصوص مدوں میں حضور صرف فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا مال اسی کی راہ میں خرچ فرماتے تھے آپ نے ان کو ذاتی ملکیت نہیں قرار دیا تھا۔
پھر جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی فدک کی آمدنی کو انہیں تمام مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور خرچ فرمایا کرتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ کے زمانہ تک اسی طرح صرف ہوتی رہی۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق ‘حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت مولیٰ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سب نے فدک کی آمدنی کو انہیں مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد باغ فدک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں رہا پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اختیار میں رہا۔ ان کے بعد حضرت علی بن حسین اور حسن بن حسن کے ہاتھ آیا۔ ان کے بعد حضرت زید بن حسن بن علی برادر حضرت حسن بن حسن کے تصرف میں آیا رضی اللہ عنہم۔ پھر مروان اور مروانیوں کے اختیار میں رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد کے قبضہ و تصرف میں دے دیا۔ باغ فدک کی اس تاریخ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا مگر لوگوں نے بلاوجہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر الزام لگا کر ان کو مطعون کیا۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا۔ یہ رافضیوں کا افتراء ہے جس کا جواب دینا ہم پر لازم نہیں۔ یعنی اہل سنت کی معتبر کتابوں سے باغ فدک کا دینا ثابت نہیں بلکہ ساری کتابوں سے حضور کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک کا نہ دینا ثابت ہے جیسا کہ مشہور و معروف کتاب ابوداؤد شریف کی حدیث ہے:عن المغیرۃ قال ان عمر بن عبدالعزیز جمع بنی مروان حین استخلف فقال ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت لہ فدک ینفق منھا ویعودمنھا علیٰ صغیر بنی ھاشم و یزوج منھا ائمھم وان فاطمۃ سالتہ ان یجعلھا لھا فابٰی فکانت کذٰلک فی حیوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی مضی لسبیلہ فلما ان ولی ابوبکر عمل فیھا بما عمل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حیوتہ حی مضی لسبیلہ فلما ان ولی عمر بن الخطاب عمل فیھا بمشل ماعملا حتی مضی لسبیلہ ثم اقطعھا مروان ثم صارف لعمر بن عبدالعزیز فرایت امراء منعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاطمۃ لیس لی بحق وانی اشھد کم انی رددتھا علیٰ ماکانت یعنی علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر و عمر۔
مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبداالعزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت کا جب زمانہ آیا تو انہوں نے بنی مروان کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جس کی آمدنی وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے تھے اور بنی ہاشم کے بچوں کو پہنچاتے تھے اور اس سے مجرد 
مرد و عورت کا نکاح بھی کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے سوال کیا کہ فدک ان ہی کے لئے مقرر کر دیں تو حضور نے انکار کر دیا تو ایسے ہی آپ کی زندگی بھر رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی پھر جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فدک میں ویسا ہی کیا جیسا کہ حضور نے کیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی رحلت فرما گئے پھر جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ حضور اور ابوبکر نے کیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے۔ پھر مروان نے (اپنے دور میں) فدک کواپنی جاگیرمیں لے لیا یہاں تک کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کی جاگیر بنا۔ پس میں نے دیکھا کہ جس چیز کو حضور نے اپنی بیٹی فاطمہ کو نہیں دیا اس پر میرا حق کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا میں آپ لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اسی دستور پر واپس کر دیا جس دستور پر کہ وہ پہلے تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانۂ مبارک میں۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۳۵۶)
اس حدیث شریف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک کا نہ دینا واضح طور پر ثابت ہے بلکہ شرح ابن الحدید جو رافضیوں کی معتبر مذہبی کتاب نہج البلاغۃ کی شرح ہے اس میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں
قال لھا ابوبکر لما طلبت فدک بابی وامی انت الصادقۃ الامینۃ عندی ان کان رسول اللّٰہ عھد الیک عھد اووعدک وعدا صدقتک وسلمت الیک فقالت لم یعھدی الی فی ذٰلک۔
جب فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے فدک طلب کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ میرے نزدیک صادقہ امینہ ہیں‘ اگر حضور نے آپ کے لئے فدک کی وصیت کی ہو یا وعدہ کیا ہو تو اسے میں تسلیم کرتا ہوں اور فدک آپ کے حوالے کر دیتا ہوں تو سیّدہ نے فرمایا کہ فدک کے معاملہ میں حضور نے میرے لئے کوئی وصیت نہیں فرمائی ہے۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک دینے کا جو افسانہ بنایا گیا ہے وہ صحیح نہیں اس لئے کہ حضرت سیّدہ خود فرما رہی ہیں کہ حضور نے فدک کے لئے میرے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ہے‘ اور نہ وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا جب حضور نے باغ فدک حضرت سیّدہ کو دیا نہیں اور دینے کا وعدہ بھی نہیں فرمایا اور نہ وصیت فرمائی تو پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غصب کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘ اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کو فدک ہبہ کر دیا تھا تو یہ مسئلہ رافضی و سنی دونوں کے یہاں متفقہ طور پر مسلم ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز پر تاوقتیکہ موہوب لہ یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے اس کا قبضہ و تصرف نہ ہو جائے وہ چیز موہوب لہ کی ملک نہیں ہو سکتی اور فدک بالاتفاق حضور کی ظاہری حیات میں کبھی حضرت سیّدہ کے قبضہ میں نہیں آیا بلکہ حضور ہی کے اختیار میں رہا اور آپ ہی اس میں مالکانہ تصرف فرماتے رہے۔ 
پھر فدک مال فئی سے تھا اسی لئے محدثین کرام فدک کی حدیث کو باب الفئی میں لائے ہیں اور فئی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اس کے مصارف کو خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود بیان فرمایا ہے
اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ۔ 
جو فئی دلایا اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول کا ہے‘ اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں ور مسافروں کے لئے ہے۔ (پ ۲۸ ع ۴)
اور مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد چہارم ص ۳۱۳ پر مُغرب سے ہے:
حکمہ ان یکون لکافۃ المسلمین 
فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے ہے‘ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں
’حکم فئی آنست کہ مرعامہ مسلمانان رامی باشد و دروے خمس وقسمت نیست و اختیار آں بدست آنحضرت ست۔
 فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے ہے اس میں خمس و تقسیم نہیں ہے‘ اور اس کی تولیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے (اشعۃ ج ۳‘ ص ۴۴۶) معلوم ہوا مال فئی وقف ہوتا ہے کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی آمدنی کو قرآن کی تصریح کے مطابق اپنی ذات پر۔ ازواج مطہرات اور بنی ہاشم پر اورغریبوں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ فرما دیتے تھے جو اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ فدک کسی کی ملکیت نہیں تھا بلکہ وقف تھا اور مال وقف میں میراث جاری ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ص ١٩٩)
حضرت فاطمہ زہرا نے حضور کی زندگی پاک میں باغ فدک حضور سے مانگا۔آپ نے تملیک سے انکار فرمادیا،حضور چاہتے تھے کہ باغ میرے بعد وقف رہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کا متروک مال وقف ہوتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ حضرت علی نے بھی اسے اپنی خلافت میں تقسیم نہ فرمایا حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق نے صرف متولی ہونے کی حیثیت سے اس باغ کی آمدنی کا انتظام فرمایا،کسی نے اسے اپنی ملکیت قرار نہ دیا۔حضرات امہات المؤمنین نے عثمان غنی کو حضرت صدیق اکبر کے پاس طلب میراث کے لیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے منع فرمادیا وہ حدیث سنا کر کہ حضرات انبیاءکرام کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(اشعۃ اللمعات) 
مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے،یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا،یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہذا مروان صحابی نہیں
پھر جب حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور آیا تو آپ نے کہا 
اس باغ میں میرا کچھ حصہ نہیں یہ اسی طرح وقف رہے گا جیسے ان حضرات کے زمانہ میں وقف تھا۔چنانچہ آپ نے تمام بنی امیہ سے وہ باغ واپس لے کر ویسے ہی وقف قرار دے دیا۔یہ عدل و انصاف آپ کے انتہائی تقویٰ،طہارت خوفِ خدا کی دلیل ہے۔خیال رہے کہ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں
باغ فدک حضرت علی و عباس کی تولیت میں دے دیا تھا،یہ دونوں حضرات متولی تھے نہ کہ مالک،پھر ان دونوں نے اس کی تقسیم چاہی تو جناب فاروق نے فرمایا کہ تقسیم کیسی یہ تمہاری ملکیت نہیں صرف تولیت ہے،یہ قصہ بخاری شریف وغیرہ میں بہت تفصیل سے مذکور ہے۔خیال رہے کہ حضرت علی و عباس نے ملکیت کی تقسیم نہ چاہی تھی بلکہ تولیت کی تقسیم کی خواہش کی تھی حضرت عمر نے اس کو بھی قبول نہ فرمایا تاکہ آگے چل کر یہ تقسیم ملکیت کا ذریعہ نہ بن جائے،حضور کا متروکہ مال سارے مسلمانوں کے نفع پر خرچ ہوگا مگر اس کا انتظام یا بادشاہ کرے گا یا جسے بادشاہ اسلام مقرر فرمادے۔
والله و رسوله أعلم بالصواب 
(((((((()))))))))))))))))
کتبہ :-فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن
 شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔
31/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area