(سوال نمبر 6045)
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا؟
....................................
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا اگر دیا تھا تو کیا شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے جب کے شرعاً جائز نہیں ؟
گروپ کن فیکون سائلہ کا نام سدرہ شہر کا نام فیصل آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اس میں اختلاف ہے راجح قول یہی ہے کہ حضرت علی غسل نہیں دئے تھے ۔چونکہ
بیوی کے انتقال کے بعد شوہر بیوی کو صرف دیکھ سکتا ہے ہاتھ لگانے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے
ویمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إلیها علی الأصح، وهی لا تمنع من ذلک أی من تغسیل زوجها دخل بها أو لا۔(شامی، کتاب الجنائز ، ۲/۱۹۸ )
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسد پاکی کو ان کی وصیت کے مطابق حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے غسل دیا اور حضرت سلمیٰ ام رافع اور امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ان کے غسل میں شریک تھیں اور حضرت علی رضی اللہ نے ان کے ساتھ انتظام وانصرام مثلاً سامان پانی وغیرہ میں تعاون کیا تھا اس وجہ سے بعض روایات میں غسل دینے کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کردی گئی ہے راجح بات یہی ہے البتہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انہیں غسل دینا ثابت ہو تو یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہوگی جیساکہ بعض روایات میں موجود ہے۔
البداية والنهاية میں ہے
ولما حضرتها الوفاة أوصت إلى أسماء بنت عميس - امرأة الصديق أن تغسلها فغسلتها هي وعلي بن أبي طالب وسلمى أم رافع، قيل: والعباس بن عبد المطلب.
البداية والنهاية (6/ 366)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
قال في شرح المجمع لمصنفه: فاطمة -رضي الله تعالى عنها- غسلتها أم أيمن حاضنته صلى الله عليه وسلم ورضي عنها، فتحمل رواية الغسل لعلي -رضي الله تعالى عنه- على معنى التهيئة والقيام التام بأسبابه، ولئن ثبتت الرواية فهو مختص به، ألا ترى «أن ابن مسعود -رضي الله عنه- لما اعترض عليه بذلك أجابه بقوله: أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فاطمة زوجتك في الدنيا والآخرة»، فادعاؤه الخصوصية دليل على أن المذهب عندهم عدم الجواز اهـ. مطلب في حديث: «كل سبب ونسب منقطع إلا سببي ونسبي».
قلت: ويدل على الخصوصية أيضاً الحديث الذي ذكره الشارح وفسر بعضهم السبب فيه بالإسلام والتقوى، والنسب بالانتساب ولو بالمصاهرة والرضاع، ويظهر لي أن الأولى كون المراد بالسبب القرابة السببية كالزوجية والمصاهرة وبالنسب القرابة النسبية؛ لأن سببية الإسلام والتقوى لاتنقطع عن أحد، فبقيت الخصوصية في سببه ونسبه صلى الله عليه وسلم ولهذا قال عمر -رضي الله تعالى عنه-: فتزوجت أم كلثوم بنت علي لذلك (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 198)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا؟
....................................
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا اگر دیا تھا تو کیا شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے جب کے شرعاً جائز نہیں ؟
گروپ کن فیکون سائلہ کا نام سدرہ شہر کا نام فیصل آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اس میں اختلاف ہے راجح قول یہی ہے کہ حضرت علی غسل نہیں دئے تھے ۔چونکہ
بیوی کے انتقال کے بعد شوہر بیوی کو صرف دیکھ سکتا ہے ہاتھ لگانے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے
ویمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إلیها علی الأصح، وهی لا تمنع من ذلک أی من تغسیل زوجها دخل بها أو لا۔(شامی، کتاب الجنائز ، ۲/۱۹۸ )
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسد پاکی کو ان کی وصیت کے مطابق حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے غسل دیا اور حضرت سلمیٰ ام رافع اور امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ان کے غسل میں شریک تھیں اور حضرت علی رضی اللہ نے ان کے ساتھ انتظام وانصرام مثلاً سامان پانی وغیرہ میں تعاون کیا تھا اس وجہ سے بعض روایات میں غسل دینے کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کردی گئی ہے راجح بات یہی ہے البتہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انہیں غسل دینا ثابت ہو تو یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہوگی جیساکہ بعض روایات میں موجود ہے۔
البداية والنهاية میں ہے
ولما حضرتها الوفاة أوصت إلى أسماء بنت عميس - امرأة الصديق أن تغسلها فغسلتها هي وعلي بن أبي طالب وسلمى أم رافع، قيل: والعباس بن عبد المطلب.
البداية والنهاية (6/ 366)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
قال في شرح المجمع لمصنفه: فاطمة -رضي الله تعالى عنها- غسلتها أم أيمن حاضنته صلى الله عليه وسلم ورضي عنها، فتحمل رواية الغسل لعلي -رضي الله تعالى عنه- على معنى التهيئة والقيام التام بأسبابه، ولئن ثبتت الرواية فهو مختص به، ألا ترى «أن ابن مسعود -رضي الله عنه- لما اعترض عليه بذلك أجابه بقوله: أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فاطمة زوجتك في الدنيا والآخرة»، فادعاؤه الخصوصية دليل على أن المذهب عندهم عدم الجواز اهـ. مطلب في حديث: «كل سبب ونسب منقطع إلا سببي ونسبي».
قلت: ويدل على الخصوصية أيضاً الحديث الذي ذكره الشارح وفسر بعضهم السبب فيه بالإسلام والتقوى، والنسب بالانتساب ولو بالمصاهرة والرضاع، ويظهر لي أن الأولى كون المراد بالسبب القرابة السببية كالزوجية والمصاهرة وبالنسب القرابة النسبية؛ لأن سببية الإسلام والتقوى لاتنقطع عن أحد، فبقيت الخصوصية في سببه ونسبه صلى الله عليه وسلم ولهذا قال عمر -رضي الله تعالى عنه-: فتزوجت أم كلثوم بنت علي لذلك (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 198)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن
شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
31/072023
31/072023