(سوال نمبر 4101)
حاملہ کو اگر طلاق دے تو بچے اور ماں کا خرچہ کس پر واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک با حمل عورت کو شرعی لِحاظ سے خرچہ مل رہا ہے تو کسی فضول بِنا پر وہ روٹھ جاۓ بغیر کسی شرعی عذر سے تو ایسی صورت میں وہ عورت 1 ماہ کے بعد خرچے کا دعویٰ کریں تو ایسی صورت میں وہ عورت کس بِنا پر خرچے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟
کیا طلاق لینے کی صورت میں بچے کی وجہ سے وہ حقدار بنے گی؟
تفصیل سے جواب ارشاد فرمائے
جزاک اللہ خیرا سائل:-
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام عليكم ورحمة الله
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب تک ہندہ بیوی ہے نان و نفقہ سکنی سب زید کے ذمہ واجب ہے حالت حمل میں خرچ بڑھ جاتا ہے اس لئے روز مرہ سے کچھ زیادہ رقم دیں تاکہ اسے حالت حمل میں کوئی دشواری نہ ہو طلاق لینے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہوگی تب تک کا نان و نفقہ سکنی شوہر کے ذمہ واجب ہے بعد وضع حمل عورت آزاد ہے دوسری شادی کر سکتی ہے پر بچے کی پرورش کی زمہ داری شوہر کے اوپر واجب ہے یعنی سات سال کی عمر ہونے تک بچہ کی پرورش ماں کرے گی اور پرورش کرنے میں کھانے پینے، لباس، دوا علاج، تعلیم وغیرہ کے تمام اخراجات باپ کے ذمہ واجب ہیں، یعنی جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں کو ان کی پرورش کا حق حاصل ہے پر خرچ باپ دیں گے بشرطیکہ وہ دوسری جگہ بچوں کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے پس اگر اس نے شادی کرلی تو ماں کا حق ساقط ہوجائے گا نیز اگر ماں فسق و فجور یا حرام کاری کے راستہ پر ہو تو اس صورت میں بھی بچوں کی پروش کا حق ساقط ہو جائے گا اور دونوں صورتوں میں بچوں کی نانی کو مقررہ عمر مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھنے کا حق ہوگا، البتہ اگر نانی وفات پاگئی ہوں تو بچے دادی کی پرورش میں رہیں گے لڑکوں کی عمر جب سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہوجائے گی تو باپ کو اپنی اولاد لینے کا شرعی حق ہوگا ۔نیزباپ اپنے بچے سے جب چاہے مل سکتا ہے، اس کو اپنے بچےسے نہ ملنے دینا ظلم ہے۔
کما في الهداية
(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب.( الهداية، (2/436)
وفي الفتاوى الهندية
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا
حاملہ کو اگر طلاق دے تو بچے اور ماں کا خرچہ کس پر واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک با حمل عورت کو شرعی لِحاظ سے خرچہ مل رہا ہے تو کسی فضول بِنا پر وہ روٹھ جاۓ بغیر کسی شرعی عذر سے تو ایسی صورت میں وہ عورت 1 ماہ کے بعد خرچے کا دعویٰ کریں تو ایسی صورت میں وہ عورت کس بِنا پر خرچے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟
کیا طلاق لینے کی صورت میں بچے کی وجہ سے وہ حقدار بنے گی؟
تفصیل سے جواب ارشاد فرمائے
جزاک اللہ خیرا سائل:-
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام عليكم ورحمة الله
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب تک ہندہ بیوی ہے نان و نفقہ سکنی سب زید کے ذمہ واجب ہے حالت حمل میں خرچ بڑھ جاتا ہے اس لئے روز مرہ سے کچھ زیادہ رقم دیں تاکہ اسے حالت حمل میں کوئی دشواری نہ ہو طلاق لینے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہوگی تب تک کا نان و نفقہ سکنی شوہر کے ذمہ واجب ہے بعد وضع حمل عورت آزاد ہے دوسری شادی کر سکتی ہے پر بچے کی پرورش کی زمہ داری شوہر کے اوپر واجب ہے یعنی سات سال کی عمر ہونے تک بچہ کی پرورش ماں کرے گی اور پرورش کرنے میں کھانے پینے، لباس، دوا علاج، تعلیم وغیرہ کے تمام اخراجات باپ کے ذمہ واجب ہیں، یعنی جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں کو ان کی پرورش کا حق حاصل ہے پر خرچ باپ دیں گے بشرطیکہ وہ دوسری جگہ بچوں کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے پس اگر اس نے شادی کرلی تو ماں کا حق ساقط ہوجائے گا نیز اگر ماں فسق و فجور یا حرام کاری کے راستہ پر ہو تو اس صورت میں بھی بچوں کی پروش کا حق ساقط ہو جائے گا اور دونوں صورتوں میں بچوں کی نانی کو مقررہ عمر مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھنے کا حق ہوگا، البتہ اگر نانی وفات پاگئی ہوں تو بچے دادی کی پرورش میں رہیں گے لڑکوں کی عمر جب سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہوجائے گی تو باپ کو اپنی اولاد لینے کا شرعی حق ہوگا ۔نیزباپ اپنے بچے سے جب چاہے مل سکتا ہے، اس کو اپنے بچےسے نہ ملنے دینا ظلم ہے۔
کما في الهداية
(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب.( الهداية، (2/436)
وفي الفتاوى الهندية
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا
(الفتاوى الهندية (1/ 541)
فتح القدیر میں یے
الأول أن یکون الأب غنیًا والأولاد کباراً فإما إناث أو ذکور، فالإناث علیہ نفقتہن إلی أن یتزوجن إن لم یکن لہن مال إلخ] (فتح القدیر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
فتح القدیر میں یے
الأول أن یکون الأب غنیًا والأولاد کباراً فإما إناث أو ذکور، فالإناث علیہ نفقتہن إلی أن یتزوجن إن لم یکن لہن مال إلخ] (فتح القدیر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
19_08/2023
19_08/2023