(سوال نمبر 6067)
حافظ سبق یاد کرنے کے وقت آیت سجدہ کئی بار پڑھتے ہیں شرعا کیا حکم ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں حفاظ جب سبق یاد کرتے ہیں تو ایک ایک آیات کو کئی بار رٹنا پڑتا ہے تو کہیں کہیں سجدہ تلاوت والی آیت کو بھی کئی بار رٹنا پڑتا ہے تو جتنا بار رٹنیں گے اتنے بار سجدہ تلاوت واجب ہوگا یا ایک بار؟ جواب عنایت فرما کر شکریہ موقع عنایت فرمائیں ۔
سائل:- محمد ناصر حسین مقیم حال دوبئی
_________(💛)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں سبق یاد کرتے وقت ایک ہی مجلس میں چاہے جتنی بار آیات سجدہ پڑھے۔اتنی بار سجدہ تلاوت واجب ہے۔
واضح رہے کہ جس طرح بالغ پر نماز فرض ہے اسی طرح حفظ کرنے کے دوران آیت سجدہ سے حافظ پر سجدہ تلاوت واجب ہے البتہ ایک مجلس میں کئی آیت سجدہ سے تالی پر ایک ہی سجدہ تلاوت واجب ہے ۔
مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے
فتاوی عالمگیری میں ہے
ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب.
(الفتاوى الهندية)
فتاوی شامی میں ہے وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.
(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اهـ واستحسنه في الحلية
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 107)
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آیت سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز سے ہو کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو خود سُن سکے، سننے والے کے لیے یہ ضرور نہیں کہ بالقصد سنی ہو بلا قصد سُننے سے بھی سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔(بہارِ ح 4 ص 733 المکتة المدینہ )
والله و رسوله أعلم بالصواب
_________(💚)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن
شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/08/02023