(سوال نمبر 4191)
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی اور بھی علم سیکھا سکتا ہے و نصیحت کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی اور بھی علم سیکھا سکتا ہے و نصیحت کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی اور بھی علم سیکھا سکتا ہے و نصیحت کر سکتا ہے وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:- غلام یزدانی مرکزی بریلی شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
فرشتوں کو کسی سے علم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ان کا رابطہ سیدھے اللہ سے ہوتا ہے بس وہ وہی کرتے ہیں جو اللہ کا حکم ہوتا ہے اب چونکہ ملائک سے انبیاء کرام علیہم السلام افضل ہیں بس ملائک اپنا کام کرتے ہیں پر بوقت ضرورت انبیاء بتا سکتے ہیں چونکہ انبیاء ان سے افضل ہیں اور آقا علیہ السلام ان تمام سے افضل ہیں
باقی علم سیکھنا یا کسی سے نصیحت خود کے لئے لینا اس کی ضرورت ہی نہیں ہے اسے صرف وہی کرنا ہے جو حکم رب ہو ۔
بہار شریعت میں ہے فرشتے اجسامِ نوری ہیںﷲ تعالیٰ نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں و ہ و ہی کرتے ہیں جو حکمِ الٰہی ہے خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے نہ قصداً نہ سہواً نہ خطأً وہ ﷲ کے معصوم بندے ہیں ہر قسم کے صغائر و کبائر سے پاک ہیں ان کو مختلف خدمتیں سپرد ہیں بعض کے ذمّہ حضراتِ انبیا ئے کرام کی خدمت میں وحی لانا، کسی کے متعلق پانی برسانا، کسی کے متعلق ہوا چلانا کسی کے متعلق روزی پہنچانا کسی کے ذمہ ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا کسی کے متعلق بدنِ انسان کے اندر تصرّف کرنا کسی کے متعلق انسان کی دشمنوں سےحفاظت کرنا،کسی کے متعلق ذاکرین کا مجمع تلاش کرکے اُس میں حاضر ہونا کسی کے متعلق انسان کے نامۂ اعمال لکھنا بہُتوں کا دربارِ رسالت میں حاضر ہونا کسی کے متعلق سرکار میں مسلمانوں کی صلاۃ و سلام پہنچانا (بہار شریعت ح1 ص 94 مکتبہ المدینہ)
قران میں واقعہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور یہ عقیدہ کئی دلائل سے ثابت ہے،ان میں سے 6 دلائل درج ذیل ہیں
(1) حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔
(2)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
سائل:- غلام یزدانی مرکزی بریلی شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
فرشتوں کو کسی سے علم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ان کا رابطہ سیدھے اللہ سے ہوتا ہے بس وہ وہی کرتے ہیں جو اللہ کا حکم ہوتا ہے اب چونکہ ملائک سے انبیاء کرام علیہم السلام افضل ہیں بس ملائک اپنا کام کرتے ہیں پر بوقت ضرورت انبیاء بتا سکتے ہیں چونکہ انبیاء ان سے افضل ہیں اور آقا علیہ السلام ان تمام سے افضل ہیں
باقی علم سیکھنا یا کسی سے نصیحت خود کے لئے لینا اس کی ضرورت ہی نہیں ہے اسے صرف وہی کرنا ہے جو حکم رب ہو ۔
بہار شریعت میں ہے فرشتے اجسامِ نوری ہیںﷲ تعالیٰ نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں و ہ و ہی کرتے ہیں جو حکمِ الٰہی ہے خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے نہ قصداً نہ سہواً نہ خطأً وہ ﷲ کے معصوم بندے ہیں ہر قسم کے صغائر و کبائر سے پاک ہیں ان کو مختلف خدمتیں سپرد ہیں بعض کے ذمّہ حضراتِ انبیا ئے کرام کی خدمت میں وحی لانا، کسی کے متعلق پانی برسانا، کسی کے متعلق ہوا چلانا کسی کے متعلق روزی پہنچانا کسی کے ذمہ ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا کسی کے متعلق بدنِ انسان کے اندر تصرّف کرنا کسی کے متعلق انسان کی دشمنوں سےحفاظت کرنا،کسی کے متعلق ذاکرین کا مجمع تلاش کرکے اُس میں حاضر ہونا کسی کے متعلق انسان کے نامۂ اعمال لکھنا بہُتوں کا دربارِ رسالت میں حاضر ہونا کسی کے متعلق سرکار میں مسلمانوں کی صلاۃ و سلام پہنچانا (بہار شریعت ح1 ص 94 مکتبہ المدینہ)
قران میں واقعہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور یہ عقیدہ کئی دلائل سے ثابت ہے،ان میں سے 6 دلائل درج ذیل ہیں
(1) حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔
(2)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
(زمر: ۹)(کنزالعرفان)
تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔
(4) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ‘‘
تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔
(4) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ‘‘
(اٰل عمران: ۳۳) (کنزالعرفان)
بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام مخلوقات پر چن لیا اور چونکہ مخلوقات میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے اِن پر بھی اُن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چنا گیا لہٰذا وہ فرشتوں سے افضل ہوئے۔
(5) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘
بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام مخلوقات پر چن لیا اور چونکہ مخلوقات میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے اِن پر بھی اُن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چنا گیا لہٰذا وہ فرشتوں سے افضل ہوئے۔
(5) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘
(انبیاء: ۱۰۷)(کنزالعرفان)
اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
اور چونکہ عالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اِن کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں کے لئے رحمت ِ مطلق ہیں تو یقینا ان سے افضل بھی ہیں۔
(6) حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میرے دو وزیر آسمانوں میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ، ۲ / ۶۵۳-۶۵۴، الحدیث: ۳۱۰۰-۳۱۰۱)
اس حدیث ِپاک سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں سے افضل ہیں۔
اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
اور چونکہ عالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اِن کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں کے لئے رحمت ِ مطلق ہیں تو یقینا ان سے افضل بھی ہیں۔
(6) حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میرے دو وزیر آسمانوں میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ، ۲ / ۶۵۳-۶۵۴، الحدیث: ۳۱۰۰-۳۱۰۱)
اس حدیث ِپاک سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں سے افضل ہیں۔
(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱ / ۴۴۵)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/08/2023
26/08/2023