Type Here to Get Search Results !

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 13

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 13
________(❤️)_________
قسط سیزدہم
حضور مفتی اعظم بہار کی تحقیق انیق کہ اذان ذکر الہی ہے مگر خالص ذکر الہی نہیں ہے اور ہر لفظ اپنی پہچان خود بتلاتا ہے کہ میرا محل کہاں ہے۔
(جنید عالم شارق مصباحی بیتاہی)
سوال:-
آپ نے قسط دوازدہم کے نصف آخر میں لکھا کہ اذان ذکر الہی ہے مگر خالص ذکر الہی نہیں ہے یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہم لوگ اذان کو ذکر الہی ہی جانتے ہیں اس کا خلاصہ بیان فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
جواب:- 
برادران اسلام ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اب تک اس فقیر قادری نے عزیزم بابو مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی سلمہ بیتاہی خطیب و امام کوئيلی ؛ خلیفہ مجاز سلسلہ عالیہ قادریہ ثنائیہ مرپا شریف کے توسل سے قسط اول سے دوازدہم تک پیش کرنے کی سعادت حاصل کیا ہے ۔امید قوی ہے کہ آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا۔ گزارش ہے کہ جن مساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے داخل مسجد اذان دی جارہی ہے اسے حتی الامکان روکنے کی کوشش کریں اور باہر سے دلوائیں ۔
قسط دوازدہم کے نصف آخر میں جو لکھا گیا کہ اذان ذکر الہی ہے مگر خالص ذکر نہیں ہے وہ فتاوی رضویہ جلد جدید پنجم کے حوالہ سے لکھا گیا تھا اور اس کے متعلق دلائل بھی فتاوی رضویہ جلد جدید 28 میں ہے جو پیش کررہا ہوں ۔
کوئی بھی اذان مسجدکے اندر جو موضوع صلاۃ ہے ؛ دینا جائز نہیں یہ فقہا کے نصوص سے ثابت ہے ایک بھی قول ایسا نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ داخل مسجد اذان دینا جائز ہے اور یہ اپنے نصوص پر ہے یہ کہنا کہ لاؤڈ اسپیکر سے جائز ہے یہ اصول فقہ اور اقوال فقہا کے خلاف ہے یہ قید بڑھانا کہ لاؤڈ اسپیکر سے جائز ہے اپنے آپ کو احکام عامہ شرع سے باہر قرار دینا ہے ۔
اذان ذکر الہی ہے مگر حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کی وجہ سے اذان خالص ذکر الہی نہیں ہے اذان میں کلمات اللہ اکبر اور شہادتین یعنی اشھد ان لا الہ الااللہ،اشھد ان محمد رسول کہتے وقت مؤذن حالت ذکر میں ہوتا ہے اسی لئے اس وقت منھ قبلہ کی طرف رکھا جاتا ہے کہ یہ ذکر رحمن ہے اور ذکر سے اس وقت شیطان بھاگ جاتا ہے اور حیعلین کے وقت یعنی حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کے وقت شیطان لوٹ آتا ہے کیونکہ یہ مخلوق کو ندا کرنا ہے اور اسی لئے اس وقت مخلوق کی طرف دائیں بائیں منھ کیا جاتا ہے اور پھر جب کلمہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا جاتا ہے تو پھر شیطان بھاگ جاتا ہے اس ندا کی وجہ سے اذان خالص ذکر الہی نہیں ہے
امام ابن مبارک و ابراہیم بن سعد نے اپنے نسخہ میں سعید بن ابراہیم عن ابیہ روایت کی : حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کی آواز مسجد میں سنی تو فرمایا تجھے معلوم نہیں کہ تو کہاں ہیں ۔تجھے معلوم نہیں کہ تو کہاں ہے ۔آپ نے آواز کو ناپسند فرمایا ۔(الزہد لابن المبارک ص 137)
اس حدیث کو ائمہ نے قبول کیا ۔
فقہا نے یہاں تک تصریح فرمائی کہ مسجد میں بلند آواز سے ذکر کرنا بھی مکروہ ہے۔ ہاں اہل فقہ کی دینی بات چیت کا استشناء ہے ایسا ہی درمختار وغیرہ کتب فقہ میں مرقوم ہے
اس کے بعد سرکار سیدی امام اہل سنت وجماعت حضور مجدداعظم سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
فاذا کان ھذا فی الذکر فما ظنک بما لیس بذکر خالص کالاذان لا شتمالہ علی الحیعلین قال الامام العینی فی البنایۃ شرح الھدایۃ ۔فان قلت الاذان ذکر فکیف یقول انہ شبہ الذکر و شبہ الشئی غیرہ قلت ھو لیس بذکر خالص علی ما لایخفی وانما اطلق اسم الذکر علیہ باعتبار ان اکثر الفاظہ ذکر اھ یعنی تو جب ذکر الہی کا یہ حال ہے تو اذان جو خالص ذکر بھی نہیں۔ کیونکہ اس میں حیعلین تو نماز کا بلاوا ہے ۔امام عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں فرمایا : اگر یہ شبہ ہو کہ اذان تو ذکر ہے، اس کو ذکر کے مشابہ قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مقاریت ہوتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اذان ذکر خالص نہیں ۔ہاں اس کے بیشتر الفاظ ضرور ذکر ہیں ۔اسی کا لحاظ کرکے اس کو ذکر کہا جاتا ہے 
(فتاوی رضویہ جلد جدید 28 ص 161 بحوالہ البنایۃ شرح الہدایۃ ۔کتاب الصلاۃ ۔باب اذان ۔جلد اول ص 557)
امام عینی علمائے احناف کے معتمد و مستند علما میں سے ہیں ۔آپ نے مذہب حنفی کی بہت خدمات کی ہیں، آپ وسیع مطالعہ کے مالک تھے آپ نے خود فرمایا کہ اذان ذکر خالص نہیں ہے۔
حضور اعلٰی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ کنز کے قول کلمہ شہادت کے وقت قبلہ کا استقبال اور صلاۃ و فلاح کے وقت دائیں بائیں مڑنے کی تشریح بحر الرائق نے محیط سے نقل کیا ۔اذان میں کملہ شہادتین حالت ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی ہے اور اس وقت استقبال قبلہ ہی مناسب ہے ۔" اور صلاۃ وفلاح میں نماز کا بلاوا ہے ۔تو اس وقت یہی اچھا ہے کہ بلانے والا، بلائے ہوؤں کی طرف متوجہ ہو
(بحر الرائق ۔کتاب الصلوۃ باب الاذان ۔جلد اول ص 258)
صلوۃ مسعودی میں ہے کہ بے شک اذان مناجات بھی ہے اور یہ بلاوا بھی ہے اور مناجات اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے جبکہ بلاوا میں لوگوں کو پکارنا ہے۔ مومن جب تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہوتا ہے تو وہ قبلہ کی طرف منھ کرتا ہے اور جب بلاوا پر پہنچتا ہے تو اپنا چہرہ گھماتا ہے ۔پھر شیخ ابو القاسم صفار رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا نماز کی دعوت دینا منادات ہے اور باقی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے لیکن ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ اذان اول سے آخر تک نماز کی دعوت ہے ۔پھر فرمایا ظاہر الروایہ یہ ہے کہ مؤذن جب حی علی الصلوۃ کہے تو سننے والا لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہے ۔اور جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو سننے والا کہے ماشاءاللہ کان ومالم یشأ لم یکن کہے ۔شیخ الاسلام برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بندہ جب ذکر رحمن میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان بھاگ جاتا ہے پھر جب مخلوق کو ندا کرتا ہے تو شیطان لوٹ آتا ہے ۔ہھر جب کہا جاتا ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ ماشاءاللہ کان تو شیطان پھر بھاگ جاتا ہے ۔ (صلوۃ المسعودی ۔جلد دوم ص 90)
پس ان تصریحات سے واضح ہوا کہ اذان ذکر الہی ہے مگر خالص ذکر الہی نہیں ہے ۔اور اس کی تائید امام عینی کی شرح بنایہ اور بحر الرائق سے ہوتی ہے ۔پھر حضور مجدداعظم سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اسے قبول فرماکر اپنے فتوی میں ثابت رکھا یعنی اس کی تائید امام اہل سنت سے بھی حاصل ہے ۔
موجودہ کچہریوں سے اس کی مثال
کسی ضلعی کچہری میں روزآنہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ جج مسلمان ہوں یا غیر مسلم جب وہ گواہوں یا مدعی ومدعی علیہ کو حاضر کرنے کا حکم دیتے ہیں تو چپراسی انہیں کچہری کے کمرہ کے اندر (فیصل گاہ)سے نہیں بلاتے بلکہ دروازے کے باہر آکر پکارتے ہیں کہ فلاں حاضر ہو فلاں حاضر ہو ۔ یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے ۔تو اس کا سبب کچہری کا ادب اور حکام کا خوف ہی ہے ۔پس اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے تو اس سے زیادہ ڈرنا چاہیے ۔اور اس قسم کے امور تعظیم و اظہار ادب میں جہاں کوئی شرعی حکم منصوص نہ ہو ۔معاملہ مشاہدہ پر ہی موقوف ہوتا ہے ۔اور مشاہدہ کا حال کچہریوں سے بیان کر چکے ہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔یہ پہلے معلوم ہوچکا کہ اذان خالص ذکر الہی نہیں ہے ۔اگر مسجد اس کے لئے بنی ہوتی تو شرع شریف مسجد کے اندر اذان کا حکم فرماتا اور اس پر عمل در آمد ایک بار ہی سہی مروی ضرور ہوتا ۔بھلا یہ سمجھ میں آنے کی بات ہے کہ جس کام کے لئے مسجد کی تعمیر ہوئی وہی مسجد میں کبھی نہیں ہوا ۔نہ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں نہ خلفائے راشدین کے عہد میں تو یہی کہا جائے گا کہ مسجد اس کے لئے بنائی ہی نہیں گئی ۔اور ایسا ہوتا بھی کیسے ۔یہ تو دربار الہی کی حاضری کا اعلان ہے اور دربار میں اعلان نہیں ہوتا ۔اعلان تو دربار کے باہر ہوتا ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 میں 172)
  مسجد میں اذان دینا مکروہ تحریمی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں صرف یہی نہیں ہے کہ اذان خالص ذکر الہی نہیں ہے بلکہ اور بھی وجوہات ہیں ۔
(1) مسجد کے اندر میں اذان دینا جائز نہیں کیونکہ یہ اعلان ہے اور اعلان دربار سے باہر ہوتا ہے ۔لغت میں اذان کا معنی ذکر الہی نہیں بلکہ اعلان ہے۔
(2) مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں کیونکہ اذان ذکر الہی ہے مگر خالص ذکر الہی نہیں ہے۔
(3) مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں کیونکہ مسجد اعلان اور ندا اور اذان کے لئے نہیں بنائی گئی اگر مسجد کی تعمیر اذان کے لئے ہوئی ہوتی تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ ضرور اذان مسجد کے اندر دلواتے اور حکم فرماتے ۔
مگر ذکر الہی ۔قران شریف کی تلاوت ۔درود خوانی جائز ہے کہ بخاری وابن ماجہ حضرت ابو ہریرہ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انما بنی لذکر اللہ والصلواۃ یعنی یہ (مساجد ) تو نماز اور ذکر الہی کے لئے بنائی گئی ہے اور دوسری حدیث میں ہے کہ ۔
ان ھذہ المساجد لا تصلح لشئی من القذر والبول والخلاء وانما ھی لقراءۃ القرآن و ذکر اللہ والصلواۃ یعنی یہ مسجدیں گندگی ، پیشاب و پاخانہ کے لئے نہیں یہ تو صرف تلاوت قرآن ، ذکر الہی اور نماز کے لئے ہیں (مسند الامام احمد بن حنبل ۔جلد سوم ص 191)
پس معلوم ہوا کہ مسجد کی تعمیر نماز ، تلاوت قرآن اور ذکر الہی کے لئے ہوئی اور درود شریف بھی ذکر الہی ہے رہا اذان تو وہ ذکر الہی ہے مگر اس کا معنی اعلان و ندا ہے ۔ اور ذکر الہی یا تلاوت قرآن یا نماز یا درود شریف کا معنی اعلان و ندا نہیں ہے اس لئے یہ امور مساجد میں جائز ہیں اور اذان معنی کے اعتبار سے جائز نہیں۔ اور نہ مسجد کی تعمیر اس کی وجہ سے ہوئی ۔ہر لفظ اپنی پہچان و مطلب اور معنی محل خود بتلاتا ہے کہ مجھ کو کس محل میں رکھنا ہے۔
ہر لفظ خود اپنی پہچان و ترکیب بتلاتا ہے ہر لفظ اپنا معنی و مطلب خود بتلاتا ہے کہ میرا محل کہاں ہے اور کہاں نہیں۔
اسی طرح ہر لفظ کو اس کے اپنے محل کے اعتبار سے استعمال کیا جاتا ہے اور اذان کا محل خارج مسجد ہے ۔چونکہ یہ غائبین کے لئے اعلان ہے اور اعلان دربار سے باہر ہوتا ہے نہ کہ دربار کے اندر ۔
(4) مسجد میں اذان دینا خلاف سنت ہے۔
(5) مسجد میں اذان دینا بدعت سيئہ ہے کہ یہ رافع سنت ہے ۔
(6) فقہا کے نصوص سے ثابت ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔
 پس اذان لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ یا بغیر لاؤڈ اسپیکرکے دونوں حالتوں میں مسجد کے اندر سے اذان دینا مکروہ تحریمی ہے ہاں مسجد کے دروازے پر یا جس جگہ بیٹھ کر وضو کرتے ہیں وہاں سے یا مسجد کے منارہ پر یا مسجد کے باہر سے اذان دینا جائز ہے ۔
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب۔
________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری 
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
مورخہ 26 محرم الحرام 1445
مطابق 14 اگست 2023
نشرکی تاریخ:- 15/08/2023
________(💙)_________
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی 
ساکن بیتاہی ،خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی سیتا مڑھی بہار

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area