(سوال نمبر 7003)
داڑھی منڈانے والے کی اذان دینے کا کیا حکم ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ داڑھی منڈانے والے کی اذان دینے کا کیا حکم ہے؟ شریعت کی رو میں راہنمائی فرما دیجئے
سائل:- حافظ محمد احمد رضا قادری رضوی لاہور پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مستحب یہ ہے کہ اذان کہنے والا نیک پرہیزگار سنت کو جاننے والا عزت و وجاہت والا،وگوں کے احوال کا نگراں اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو اذان پر مداومت کرتا ہو اور ثواب کیلیے اذان کہتا ہو، جبکہ داڑھی منڈانے والا یا ایک مٹھی سے گھٹانے والا فاسِقِ مُعْلِن ہے اور فاسقِ معلن کا اذان دینا مکروہِ تنزیہی یعنی شرعاً ناپسندیدہ ہے اور اس کی اذان کا اعادہ کرنا مستحب ثواب ہے یعنی اگر فاسقِ معلن اذان دیدے تو اس کی دی گئی اذان کو دہرانا مستحب ہے لیکن اذان کو دہرانے میں فتنے کا اندیشہ ہوتو پھر اس کی اذان کو نہ لوٹایا جائے.
حدیث پاک میں ہے
آقا علیہ السلام نے فرمایا
لیوذن لکم خیارکم
یعنی چاہیے کہ تمہارے لیے، تم میں سے بہترین لوگ اذان دیں (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان باب فضل الاذان وثواب المؤذنین ص 53 مکتبہ کراچی)
فتاوٰی شامی میں ہے
وحاصلہ انہ یصح اذان الفاسق وان لم یحصل بہ الاعلام : ای الاعتماد علی قبول قولہ فی دخول الوقت، بخلاف الکافر و غیر العاقل فلایصح اصلا، فتسویة الشارح بین الکافر و الفاسق غیر مناسبة۔
فیعاد اذان الکل ندبا علی الاصح
یعنی اور اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فاسق کی اذان صحیح ہے اگرچہ اس کے ساتھ اعلام حاصل نہیں ہوگا یعنی وقت کے داخل ہونے میں اس کے قول کو قبول کرنے پر اعتماد (حاصل نہیں ہوگا) بخلاف کافر اور غیرعاقل کی اذان کے پس (ان کی اذان) بالکل صحیح نہیں ہوگی، پس شارح کا کافر اور فاسق کے درمیان برابری کرنا مناسب نہیں۔۔۔۔
پس تمام کی اذان کا اعادہ اصح قول پر مندوب (مستحب) ہے۔(ردالمحتار علی درمختار ج دوم ص 76 77 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
فاسق کی اذان اگرچہ اقامتِ شعار کا کام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پر وقتِ روزہ و نماز میں اعتماد جائز لہذا مندوب (مستحب) ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 376، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے
مستحب یہ ہے کہ مؤذن مرد، عاقل، صالح، پرہیزگار، عالم بالسنۃ، ذی وجاہت، لوگوں کے احوال کا نگراں اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں، ان کو زجر کرنے والا ہو، اذان پر مداومت کرتا ہو اور ثواب کیلیے اذان کہتا ہو یعنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو، اگر مؤذن نابینا ہو، اور وقت بتانے والا کوئی ایسا ہے کہ صحیح بتا دے، تو اس کا اور آنکھ والے کا، اذان کہنا یکساں ہے. (بہار شریعت ج اول ح سوم ص 467 مکتبۃ المدینہ کراچی)
وقار الفتاوی میں ہے
داڑھی منڈانے والا یا کاٹ کر حدِ شرع سے کم کرنے والا فاسق ہے، اور فاسق کی اذان مکروہ ہے، اس کا اعادہ کیا جائے گا۔(وقار الفتاویٰ ج 2 ص 26 بزم وقار الدین)
فتاوٰی فیض الرسول میں ہے
اس (یعنی فاسقِ معلن) کی اذان مکروہ ہے، اگر کہہ دے تو دوبارہ کہی جائے
(فتاوی فیض الرسول ج اول ص 228 شبیربرادرز لاہور
اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے )
والله ورسوله اعلم بالصواب
داڑھی منڈانے والے کی اذان دینے کا کیا حکم ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ داڑھی منڈانے والے کی اذان دینے کا کیا حکم ہے؟ شریعت کی رو میں راہنمائی فرما دیجئے
سائل:- حافظ محمد احمد رضا قادری رضوی لاہور پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مستحب یہ ہے کہ اذان کہنے والا نیک پرہیزگار سنت کو جاننے والا عزت و وجاہت والا،وگوں کے احوال کا نگراں اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو اذان پر مداومت کرتا ہو اور ثواب کیلیے اذان کہتا ہو، جبکہ داڑھی منڈانے والا یا ایک مٹھی سے گھٹانے والا فاسِقِ مُعْلِن ہے اور فاسقِ معلن کا اذان دینا مکروہِ تنزیہی یعنی شرعاً ناپسندیدہ ہے اور اس کی اذان کا اعادہ کرنا مستحب ثواب ہے یعنی اگر فاسقِ معلن اذان دیدے تو اس کی دی گئی اذان کو دہرانا مستحب ہے لیکن اذان کو دہرانے میں فتنے کا اندیشہ ہوتو پھر اس کی اذان کو نہ لوٹایا جائے.
حدیث پاک میں ہے
آقا علیہ السلام نے فرمایا
لیوذن لکم خیارکم
یعنی چاہیے کہ تمہارے لیے، تم میں سے بہترین لوگ اذان دیں (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان باب فضل الاذان وثواب المؤذنین ص 53 مکتبہ کراچی)
فتاوٰی شامی میں ہے
وحاصلہ انہ یصح اذان الفاسق وان لم یحصل بہ الاعلام : ای الاعتماد علی قبول قولہ فی دخول الوقت، بخلاف الکافر و غیر العاقل فلایصح اصلا، فتسویة الشارح بین الکافر و الفاسق غیر مناسبة۔
فیعاد اذان الکل ندبا علی الاصح
یعنی اور اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فاسق کی اذان صحیح ہے اگرچہ اس کے ساتھ اعلام حاصل نہیں ہوگا یعنی وقت کے داخل ہونے میں اس کے قول کو قبول کرنے پر اعتماد (حاصل نہیں ہوگا) بخلاف کافر اور غیرعاقل کی اذان کے پس (ان کی اذان) بالکل صحیح نہیں ہوگی، پس شارح کا کافر اور فاسق کے درمیان برابری کرنا مناسب نہیں۔۔۔۔
پس تمام کی اذان کا اعادہ اصح قول پر مندوب (مستحب) ہے۔(ردالمحتار علی درمختار ج دوم ص 76 77 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
فاسق کی اذان اگرچہ اقامتِ شعار کا کام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پر وقتِ روزہ و نماز میں اعتماد جائز لہذا مندوب (مستحب) ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 376، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے
مستحب یہ ہے کہ مؤذن مرد، عاقل، صالح، پرہیزگار، عالم بالسنۃ، ذی وجاہت، لوگوں کے احوال کا نگراں اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں، ان کو زجر کرنے والا ہو، اذان پر مداومت کرتا ہو اور ثواب کیلیے اذان کہتا ہو یعنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو، اگر مؤذن نابینا ہو، اور وقت بتانے والا کوئی ایسا ہے کہ صحیح بتا دے، تو اس کا اور آنکھ والے کا، اذان کہنا یکساں ہے. (بہار شریعت ج اول ح سوم ص 467 مکتبۃ المدینہ کراچی)
وقار الفتاوی میں ہے
داڑھی منڈانے والا یا کاٹ کر حدِ شرع سے کم کرنے والا فاسق ہے، اور فاسق کی اذان مکروہ ہے، اس کا اعادہ کیا جائے گا۔(وقار الفتاویٰ ج 2 ص 26 بزم وقار الدین)
فتاوٰی فیض الرسول میں ہے
اس (یعنی فاسقِ معلن) کی اذان مکروہ ہے، اگر کہہ دے تو دوبارہ کہی جائے
(فتاوی فیض الرسول ج اول ص 228 شبیربرادرز لاہور
اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/08/2023