Type Here to Get Search Results !

کیا بیوی کی موجودگی میں سالی یا سالی کی بیٹی یعنی بیوی کی بھانجی سے نکاح جائز ہے؟

 (سوال نمبر 271)
کیا بیوی کی موجودگی میں سالی یا سالی کی بیٹی یعنی بیوی کی بھانجی سے نکاح جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السّلام علیکم و‌ رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ کہ زید نے اپنے ساڑو کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا اور اس سے نکاح کرلیا اب زید اس۔لڑکی کےساتھ ھی رہتا ہے کیا زید کا اس لڑکی کےساتھ نکاح اور ساتھ رہنا جائزہے اس کے بارے میں شرع کا کیا حکم ہے مکمل جواب۔عنایت فرمائیں عین مہربانی ہوگی 
سائل:- محمد امیر الدین رضوی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں بسوال صحت اگر زید نے اپنے ساڑھو کی بیٹی یعنی سالی کی بیٹی جو زید کی بیوی کی بھانجی ہے اسے بھگا کر اس کے ساتھ نکاح کرلیا جو شرعا جائز نہیں حرام ہے کہ خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کر نا پایا گیا جو حرام ہے در اصل نکاح منعقد ہی نہیں ہوا زید فی الفور ہندہ کو آزاد کر دے اگر زید ہندہ کے ساتھ اب بھی بیوی جیسا سلوک کرتا ہے تو زید کار حرام اور زنا کا مرتکب ہے ۔سماجی دبائو ڈال کر دونوں کے مابین ضرور بالضرور تفریق کیا جائے اگر زید نہ مانے تو مکمل طور سے سماجی بائیکاٹ کیا جائے ۔
بیوی کی موجودگی میں سالی یا سالی کی بیٹی یعنی بیوی کی بھانجی سے نکاح جائز نہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:
عَنْ أَبِي هرَیْرَة قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ لَا تُنْکَحُ الْمَرْأَة عَلَی عَمَّتِها وَلَا الْعَمَّة عَلَی بِنْتِ أَخِیها وَلَا الْمَرْأَة عَلَی خَالَتِها وَلَا الْخَالَة عَلَی بِنْتِ أُخْتِها وَلَا تُنْکَحُ الْکُبْرَی عَلَی الصُّغْرَی وَلَا الصُّغْرَی عَلَی الْکُبْرَی،
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت اپنی پھوپھی پر نکاح نہ کروائے اور نہ پھوپھی بھتیجی پر اور نہ کوئی اپنی خالہ پر اور نہ خالہ بھانجی پر۔ نہ بڑے رشتے والی چھوٹے رشتے والی پر اور نہ چھوٹے رشتے والی بڑے رشتے والی پر نکاح کروائے
(أبو داؤد ، السنن ، 2: 224 ، رقم: 2065 ، دار الفکر)
التبہ بیوی اگر فوت ہوجائے یا طلاق کے بعد عدت گزر جائے تو پھر بیوی کی بہن یا اس کی بھانجی سے نکاح کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ کیونکہ شریعتِ مطاہرہ کی روشنی میں خالہ اور بھانجی کو بیک وقت جمع نہیں کیا جا سکتا۔
سالی کی بیٹی زید کی بیوی کی بھانجی ہے، خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، حرام ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں زید کے لیے سالی کی لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  
کما فی رد المحتار مع الدر المختار
وحرم الجمع بین المحارم نکاحًا أي عقدًا صحیحًا․․․ لحدیث مسلم: لا تنکح المرأة علی عمّتہا وہو مشہور یصلح مخصصا للکتاب الخ
 (رد المحتار مع الدر المختار: ۴/ ۱۱۵، کتاب النکاح،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area