Type Here to Get Search Results !

عقیقہ میں ساتویں دن کا حساب کیسے لگائیں؟

 (سوال نمبر  2000)
عقیقہ میں ساتویں دن کا حساب کیسے لگائیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماءکرام و مفتیان شرع متین  اس مسئلہ کے متعلق
کہ میں نے پڑھا ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کریں اگر ساتویں دن نہ کریں تو جب بھی کریں ساتویں دن کا حساب لگائیں تو یہ حساب کیسے لگائیں؟
سائلہ:- کوثر پروین شہر  تلہ گنگ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکے تو 14 یا 21  یا 28 یا 35 یا علی ہذا القیاس ورنہ جس دن پیدا ہوا اس سے ایک دن قبل بایں طور کہ 
عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں  کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ساتویں یا چودہویں  یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اس دن کو یاد رکھیں اس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں  دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں  جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں  جس جمعہ کو عقیقہ کرے گا اس میں  ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔
یاد رہے کہ کسی کو جب اللہ تعالیٰ بچے سے نوازے تو ولادت کے ساتویں روز یا چودہویں یا اکیسویں دن، اگر ان دونوں میں نہ ہوسکے تو عمر بھر جب بھی موقع میسر آئے (ساتویں دن کی رعایت کے سات) بچہ کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کرنے کا نام شریعت میں عقیقہ ہے، عقیقہ سنت  مستحبہ ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ عقیقہ کی برکت سے بچہ کے اوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو دو بکرے (یا بڑے جانور میں دو حصے) اور لڑکی پیدا ہو تو ایک بکرا (یا بڑے جانوروں میں ایک حصہ) ذبح کرنا سنن مستحبہ ہے۔
بچے یا بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا بالاتفاق مستحب عمل ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتویں دن مشروع قرار دیا ہے جیسا کہ 
١/ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
يعق عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة“ قالت : عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين شاتين، ذبحھما يوم السابع .
لڑکے کی طرف سے دو برابر کی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو دو بکریاں ساتویں دن بطور عقیقہ ذبح کیں۔
(العيال لابن ابي الدنيا: 43، والسياق له، مسند البزار 1239، مسند ابي يعلي:4521، السنن الكبري للبيھقي :303/9، 304، وسنده صحيح)

٢/  سیدہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
كل غلام مرتھن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويسمي .
ہر بچہ اپنے عقیقےکے عوض گروی رکھا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔
(مسند الامام احمد: 7/5،8، 12، 17، 18، 22، سنن ابي داود :2838، سنن الترمذي:1522، سنن النسائي :4225، سنن ابن ماجه:3165، وسنده صحيح)
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی میں عقیقہ صرف ساتویں دن کرنا چاہیے، مثلاً بچہ جمعہ کے دن پیدا ہو تو اس کا عقیقہ جمعرات کے دن کرنا چاہیے۔
٣/ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
العقيقة تذبح لسبع، او اربع عشرة، او احدي وعشرين .
عقیقےکا جانور ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں دن ذبح کیا جائے۔
(المعجم الاوسط للطبراني ۔4979، المعجم الكبير للطبراني:723، السنن الكبري للبيھقي: 303/9)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں  دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں  کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اس دن کو یاد رکھیں اس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں  دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کرے گا اس میں  ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔
(بہار ح ١٥ص ٣٥٨مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢١/٢/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area