(سوال نمبر 6042)
زید نے اپنی بہن کے ساتھ زنا جیسا برا فعل کیا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام مفتیان عظام درج زیل مسلہ میں کہ ہمارے گاوں میں ایک شخص نے اپنی بہن کے ساتھ زنا جیسا برا فعل کیا اب اس بندے کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ے نیز یہ بھی بتائیں کہ اب اگر وہ بندہ توبہ تاہب ہو تو کیا اس کی توبہ بارگاہ الہی میں قبول ہو گی کہ نہیں۔
سائل:- جواد شہر پاکستان ضلع اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زنا کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ زانی کو زنا کی سزا دینے کے بعد بھی زانی کی بخشش یقینی نہیں،رب چاہے تو معاف کرے (المرات4/665)
زنا کرنا گناہ کبیرہ ہے او راپنے محارم سے زنا کرنا اور بھی قبیح ہے، شرعا گواہ مل جانے پر اس کی سزا رجم ہے (اگر شادی شدہ ہے) ورنہ سو کوڑے ہیں، مگر آج کل حدود کا نفاذ نہیں، کہ نفاز حدود اسلامی ملک میں ممکن ہے غیر اسلامی ملک میں نہیں
اس لیے ایسے شخص کو صدق دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، ایسا شخص اگر اپنے فعل پر نادم ہوکر توبہ واستغفار کرے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عزم کرے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اس کی توبہ قبول فرمالئے گا
قال تعالی: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ․ وقال: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ․ (الآیة)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضرت عمر سے فرماتے ہیں کہ بے شک ﷲ تعالٰی نے حضور محمد کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری تو ان آیات میں جوﷲ نے اتاریں رجم -کی آیت تھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےرجم -کیا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا اور رجم کتاب ﷲ میں ہے حق ہے ۳؎ زنا کرنے والے مردوں عورتوں پر جب کہ محصن ہوں جب کہ گواہ قائم ہوجائیں یا حمل ہو یا اقرار (مسلم،بخاری)
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
ٹرجم -کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا زنا شرعی طریقے سے ثابت ہو،چار مرد مسلمانوں کی گواہی جو زنا کا مشاہدہ کریں یا غیر خاوند والی عورت کو حمل قائم ہوجائے خواہ کنواری ہو خواہ بیوہ خواہ خاوند والی مگر خاوند مفقود یا غائب شرعی ہو یا شرعی اقرار ہو چار بار اس کے بغیر رجم -نہیں کیا جاسکتا۔
(المرات ج 5 ص 464 مکتبہ المدینہ)
خیال رہے کہ اسلام بہت رحمت والا دین ہے اور حضور رحمۃ اللعالمین ہیں،مگر اسلام میں سزائیں بہت سخت ہیں کیونکہ سخت سزا سے ہی جرم بند ہوتے ہیں اور ملک میں امن و امان قائم ہوتا ہے،عرب جیسے ملک میں امن ان ہی سختیوں سے قائم ہوا اور آج ہمارے ملکوں میں امن اس لیے نہیں کہ یہاں سزائیں نرم ہیں ہم کو ا پنے ہاں کی بد امنی دیکھ کر ان سزاؤں کی قدرمعلوم ہوتی ہے کہ آج بازار میں ایک دو چوروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ایک دو زانیوں کو
رجم کردیا جائے تو ان شاءﷲ ہمارے ہاں بھی عرب جیسا امن ہوسکتا ہے کہ وہاں لوگ شب کو گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے،قیمتی دکان کھلی چھوڑکر مسجد میں نماز کے لیے آجاتے ہیں،اسلام کی خوبیاں کفاربھی ماننے لگے ہیں۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی
زید نے اپنی بہن کے ساتھ زنا جیسا برا فعل کیا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام مفتیان عظام درج زیل مسلہ میں کہ ہمارے گاوں میں ایک شخص نے اپنی بہن کے ساتھ زنا جیسا برا فعل کیا اب اس بندے کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ے نیز یہ بھی بتائیں کہ اب اگر وہ بندہ توبہ تاہب ہو تو کیا اس کی توبہ بارگاہ الہی میں قبول ہو گی کہ نہیں۔
سائل:- جواد شہر پاکستان ضلع اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زنا کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ زانی کو زنا کی سزا دینے کے بعد بھی زانی کی بخشش یقینی نہیں،رب چاہے تو معاف کرے (المرات4/665)
زنا کرنا گناہ کبیرہ ہے او راپنے محارم سے زنا کرنا اور بھی قبیح ہے، شرعا گواہ مل جانے پر اس کی سزا رجم ہے (اگر شادی شدہ ہے) ورنہ سو کوڑے ہیں، مگر آج کل حدود کا نفاذ نہیں، کہ نفاز حدود اسلامی ملک میں ممکن ہے غیر اسلامی ملک میں نہیں
اس لیے ایسے شخص کو صدق دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، ایسا شخص اگر اپنے فعل پر نادم ہوکر توبہ واستغفار کرے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عزم کرے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اس کی توبہ قبول فرمالئے گا
قال تعالی: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ․ وقال: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ․ (الآیة)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضرت عمر سے فرماتے ہیں کہ بے شک ﷲ تعالٰی نے حضور محمد کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری تو ان آیات میں جوﷲ نے اتاریں رجم -کی آیت تھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےرجم -کیا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا اور رجم کتاب ﷲ میں ہے حق ہے ۳؎ زنا کرنے والے مردوں عورتوں پر جب کہ محصن ہوں جب کہ گواہ قائم ہوجائیں یا حمل ہو یا اقرار (مسلم،بخاری)
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
ٹرجم -کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا زنا شرعی طریقے سے ثابت ہو،چار مرد مسلمانوں کی گواہی جو زنا کا مشاہدہ کریں یا غیر خاوند والی عورت کو حمل قائم ہوجائے خواہ کنواری ہو خواہ بیوہ خواہ خاوند والی مگر خاوند مفقود یا غائب شرعی ہو یا شرعی اقرار ہو چار بار اس کے بغیر رجم -نہیں کیا جاسکتا۔
(المرات ج 5 ص 464 مکتبہ المدینہ)
خیال رہے کہ اسلام بہت رحمت والا دین ہے اور حضور رحمۃ اللعالمین ہیں،مگر اسلام میں سزائیں بہت سخت ہیں کیونکہ سخت سزا سے ہی جرم بند ہوتے ہیں اور ملک میں امن و امان قائم ہوتا ہے،عرب جیسے ملک میں امن ان ہی سختیوں سے قائم ہوا اور آج ہمارے ملکوں میں امن اس لیے نہیں کہ یہاں سزائیں نرم ہیں ہم کو ا پنے ہاں کی بد امنی دیکھ کر ان سزاؤں کی قدرمعلوم ہوتی ہے کہ آج بازار میں ایک دو چوروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ایک دو زانیوں کو
رجم کردیا جائے تو ان شاءﷲ ہمارے ہاں بھی عرب جیسا امن ہوسکتا ہے کہ وہاں لوگ شب کو گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے،قیمتی دکان کھلی چھوڑکر مسجد میں نماز کے لیے آجاتے ہیں،اسلام کی خوبیاں کفاربھی ماننے لگے ہیں۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن
شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
31/07/2023
31/07/2023