Type Here to Get Search Results !

اے اللہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی مصروفیت کم کر دے کیا ایسا جملہ کہنا کفر ہے؟

 (سوال نمبر 230)
 اے اللہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی مصروفیت کم کر دے کیا ایسا جملہ کہنا کفر ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہے علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
اگر ایک ساتھ بہت سی اموات ہو جائیں جسے کہ اگر کوئی جہاز تباہ ہو جائے تو اگر کوئی یہ کہے کہ اے اللّہ حضرت عزرائیل کی مصروفیت کم کر دے تو کیا ایسا جملہ کہنا کفر ہے کیا ؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
سائل:- محمد شبر پاکستان ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں قائل کا قول اے اللہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی مصروفیت کو کم کردے، گویا قائل یہ کہنا چاہ ریا ہے اے اللہ تعالی تو ہم سب پر رحم وکرم فرما کہ جہاز تباہ ہوگیا کافی لوگ مر گئے باقی ہم سب پر رحم وکرم فرما
بالفاظ دیگر ملک الموت کو تو فرمادے کہ ہم سب کی روح نہ نکالے مذکورہ جملہ کفریہ نہیں ہے البتہ ایسے جملوں سے اجتناب کرنی چاہئے
بس ضروریات دین و تویہن شعائر اسلام کا منکر کافر ہے
اب ضروریات دین کسے کہتے ہیں ذیل میں مطالعہ کریں
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
 کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں،اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے اﷲ عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا، مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔
 عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقۂ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں،مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں  اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہ وہ کہ کوردہ
(یعنی کم آباد اور چھوٹا گاؤں جسے کوئی نہ جانتا ہواور نہ ہی وہاں تعلیم کا کوئی سلسلہ ہوں) اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں ۔(بحوالہ بہار شریعت ح ١ص ١٧٥دعوت اسلامی)  
في شرح العقائد النسفیۃ (إنّ الإیمان في الشرع ھو التصدیق بما جاء بہ من عند اللّٰہ تعالی،أي،تصدیق النبي بالقلب في جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عند اللّٰہ تعالی )
(شرح العقائد النسفیۃ مبحث الإیمان، ص ۱۲۰)
في،المسامرۃ ،و ،المسایرۃ، الکلام فيمتعلق الإیمان، ص۳۳۰، ( الإیمان ھو التصدیق بالقلب فقط ) أي ،قبول القلب وإذعانہ لما علم بالضرورۃ أنّہ من دین محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیث تعلمہ العامۃ من غیر افتقار إلی نظر ولا استدلال کالوحدانیۃ والنبوۃ والبعث والجزاء ووجوب الصلاۃ والزکاۃ وحرمۃ الخمر ونحوہا، ویکفي الإجمال فیما یلاحظ إجمالاً کالإیمان بالملا ئکۃ والکتب والرسل، ویشترط التفصیل فیما یلاحظ تفصیلا کجبریل ومیکائیل وموسی وعیسی والتوراۃ والإنجیل، حتی إنّ من لم یصدق بواحد معین منہا کافر  (و) القول بأن مسمی الإیمان ہذا التصدیق فقط ( ہو المختار عند جمہور الأشاعرۃ ) وبہ قال الماتریدي )
(الأشباہ والنظائر ،الفن الثاني، کتاب السیر، ص ۱۵۹۔البحر الرائق ،کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، ج ۵ ، ص  ۲۰۲۔’’ الدر المختار  کتاب الجھاد، باب المرتد، ج ۶ ، ص ۳۴۲)
في الہندیۃ ، کتاب السیر، الباب في أحکام المرتدین، ج ۲ ، ص ۲۶۳)
( إذا لم یعرف الرجل أنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخر الأنبیاء علیہم وعلی نبینا السلام فلیس بمسلم؛ لأنّہ من الضروریات)۔
(الأشباہ والنظائر الفن الثاني، کتاب السیر، ص ۱۶۱)
وفسرت الضروریات بما یشترک في علمہ الخواص والعوام، أقول :  المراد العوام الذین لہم شغل بالدین واختلاط بعلمائہ إلخ ۔ 
(الفتاوی الرضویۃ ،کتاب الطھارۃ، باب الوضوء، ج ۱ ، ص ۱۸۱)
والله ورسوله أعلم بالصواب 
________(❤️)________
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيپال۔٧/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area