(سوال نمبر 4235)
اگر غیر شرعی طور پر شوہر ہمبستری کرے تو کیا بیوی طلاق یا خلع لے سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق ایک خاتون ہے جو کہ رہی ہے میرا شوہر مجھ پر ظلم کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح ہمبستری کرتا ہے جس کو شریعت نے سخت منع کیا ہے مثلاً پیچھے کے مقام سے اور منہ وغیرہ کے مقام سے اب عورت اس صورت حال میں خلع مانگ رہی ہے اور قسم کھا رہی ہے کے اس نے اس طرح ہمبستری کرنے کے لیئے مجھے مجبور کیا پر شوہر بھی قسم کھا رہا ہے کے میں اس طرح نہیں کیا ہے اب کیا اس سچویشن میں عورت کی قسم کا اعتبار ہے یا شوہر کی قسم کا اعتبار ہوگا آیا بیوی کا خلع لینا درست ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمائے جزاک للہ خیرا
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصحت سوال بلاوجہ طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے حدیث شریف میں اس بابت سخت وعید آئی ہے
قال علیہ السلام
أیما امرأة سألت زوجہا طلاقًا في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحة الجنة (مشکوة: ۲/ ۲۸۳)
جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے (مشکوۃ: ۲/ ۲۸۳)
بیوی کے پیچھے کے مقام میں جماع کرنا حرام و گناہ ہے غالبا شوہر نرا جاہل ہے علم دین سے ایسے شخص کو دور دور تک کا کوئی ناطہ نہیں ہے۔
مباشرہ بُشرۃ سے بنا بمعنی ظاہری کھال اسی لیے انسان کو بشر کہتے ہیں یعنی ظاہری اورکھلی کھال والا کہ نہ اس پر بال ہیں نہ پر جو کھال ڈھانپ لیں۔مباشرت کے معنی ہیں کھال سے کھال ملانا اس سے مراد ہے صحبت کرنا
عورت کی دبر میں وطی کرنا تمام دینوں میں حرام ہے اسلام میں حرام قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے اس کا مرتکب فاسق و فاجر حدیث و قرآن کا مطلب ہے کہ مرد عوت کے پیچھے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر فرج میں صحبت کرے
قرآن کی آیت میں نساؤکم سے مراد مطلقًا عورتیں ہیں خواہ اپنی بیویاں ہوں یا اپنی لونڈیاں اور یہاں بمعنی این نہیں بلکہ بمعنی کیف ہے یعنی تعمیم مکان کے لیے نہیں بلکہ تعمیم کیفیت کے لیے ہے اسی لیے حرثکم ارشاد ہوا یعنی اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو جاؤ کھڑے بیٹھے لیٹے آگے سے یا پیچھے سے بشرطیکہ فرج میں صحبت ہو کہ فرج ہی کھیتی ہے نہ کہ اور جگہ اس آیت کی مزید تحقیق تفسیر نعیمی پارہ دوم میں ملاحظہ کیجئے۔
مذکورہ صورت میں دونوں کے مابین نباہ کی کوئی گنجائش نہ ہو تو شوہر کو سنت کے مطابق طلاق دے دینا چاہیے اور اگر شوہر طلاق نہ دیتا ہو پھر عورت کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ دیئے گئے مہر کے عوض شوہر سے خلع لے لے مہر سے زیادہ لینا غیر مناسب اور مکروہ ہے جب شوہر خلع کے عوض مہر لینے میں راضی ہوجائے اور عورت بھی راضی ہوجائے پھر طلاق بائن واقع ہوگی عورت عدت گزار کر کہیں بھی شادی کر سکتی ہے اور عدت طلاق کا خرچ شوہر کے ذمے ہوں گے ۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں ﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے (البقرة، 2: 229)
یاد رہے شوہر طلاق دے تو بیوی کو دیا گیا مال واپس لینے سے منع کیا گیا ہے لیکن جب شوہر کی طرف سے کوئی خرابی نہ ہو مگر عورت کسی وجہ سے اُس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اور علیحدگی کی صورت میں مرد حق مہر وغیرہ کی رقم واپس لے سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے
حضرت حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا جو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں کسی وجہ سے دل میں نفرت پیدا ہوئی تو بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر علیحدگی کا مطالبہ کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر میں ملا ہوا باغ واپس لے کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو لوٹا دیا اور ان کے درمیان علیحدگی کروا دی۔
حدیث مبارکہ میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں آ کر کہنے لگی یا رسول ﷲ میں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہیں کرتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔(بخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
اگر میاں بیوی میں نباہ نہیں ہو رہا اور نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں تو اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرنے کے لیے ان کو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے
والله ورسوله اعلم بالصواب
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصحت سوال بلاوجہ طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے حدیث شریف میں اس بابت سخت وعید آئی ہے
قال علیہ السلام
أیما امرأة سألت زوجہا طلاقًا في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحة الجنة (مشکوة: ۲/ ۲۸۳)
جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے (مشکوۃ: ۲/ ۲۸۳)
بیوی کے پیچھے کے مقام میں جماع کرنا حرام و گناہ ہے غالبا شوہر نرا جاہل ہے علم دین سے ایسے شخص کو دور دور تک کا کوئی ناطہ نہیں ہے۔
مباشرہ بُشرۃ سے بنا بمعنی ظاہری کھال اسی لیے انسان کو بشر کہتے ہیں یعنی ظاہری اورکھلی کھال والا کہ نہ اس پر بال ہیں نہ پر جو کھال ڈھانپ لیں۔مباشرت کے معنی ہیں کھال سے کھال ملانا اس سے مراد ہے صحبت کرنا
عورت کی دبر میں وطی کرنا تمام دینوں میں حرام ہے اسلام میں حرام قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے اس کا مرتکب فاسق و فاجر حدیث و قرآن کا مطلب ہے کہ مرد عوت کے پیچھے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر فرج میں صحبت کرے
قرآن کی آیت میں نساؤکم سے مراد مطلقًا عورتیں ہیں خواہ اپنی بیویاں ہوں یا اپنی لونڈیاں اور یہاں بمعنی این نہیں بلکہ بمعنی کیف ہے یعنی تعمیم مکان کے لیے نہیں بلکہ تعمیم کیفیت کے لیے ہے اسی لیے حرثکم ارشاد ہوا یعنی اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو جاؤ کھڑے بیٹھے لیٹے آگے سے یا پیچھے سے بشرطیکہ فرج میں صحبت ہو کہ فرج ہی کھیتی ہے نہ کہ اور جگہ اس آیت کی مزید تحقیق تفسیر نعیمی پارہ دوم میں ملاحظہ کیجئے۔
مذکورہ صورت میں دونوں کے مابین نباہ کی کوئی گنجائش نہ ہو تو شوہر کو سنت کے مطابق طلاق دے دینا چاہیے اور اگر شوہر طلاق نہ دیتا ہو پھر عورت کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ دیئے گئے مہر کے عوض شوہر سے خلع لے لے مہر سے زیادہ لینا غیر مناسب اور مکروہ ہے جب شوہر خلع کے عوض مہر لینے میں راضی ہوجائے اور عورت بھی راضی ہوجائے پھر طلاق بائن واقع ہوگی عورت عدت گزار کر کہیں بھی شادی کر سکتی ہے اور عدت طلاق کا خرچ شوہر کے ذمے ہوں گے ۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں ﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے (البقرة، 2: 229)
یاد رہے شوہر طلاق دے تو بیوی کو دیا گیا مال واپس لینے سے منع کیا گیا ہے لیکن جب شوہر کی طرف سے کوئی خرابی نہ ہو مگر عورت کسی وجہ سے اُس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اور علیحدگی کی صورت میں مرد حق مہر وغیرہ کی رقم واپس لے سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے
حضرت حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا جو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں کسی وجہ سے دل میں نفرت پیدا ہوئی تو بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر علیحدگی کا مطالبہ کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر میں ملا ہوا باغ واپس لے کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو لوٹا دیا اور ان کے درمیان علیحدگی کروا دی۔
حدیث مبارکہ میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں آ کر کہنے لگی یا رسول ﷲ میں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہیں کرتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔(بخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
اگر میاں بیوی میں نباہ نہیں ہو رہا اور نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں تو اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرنے کے لیے ان کو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/08/2023
30/08/2023