(سوال نمبر 7021)
آب حیات کیا ہے ؟ کیا حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آب حیات کیا ہے کیا حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا تھا جس کے وجہ سے وہ ابھی بھی زندہ ہے ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور ویسٹ بنگال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
ہاں حضرت خضر علیہ السلام اب حیات پئے تھے اس وجہ سے آپ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے
حضرت سیدنا خضر علیہ السلام اور حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام زمین پر موجود ہیں اور یہ وہ انبیاء کرام ہیں جن کی وفات ابھی تک واقع نہیں ہوئی ہے نیز حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
سیدنا الیاس علیہ السلام نبی مرسل ہیں اور سیدنا خضر علیہ السلام بھی جمہور کے نزدیک نبی ہیں اوران کوخاص طورسے علم غیب عطا ہواہے، یہ دونوں حضرات ان چار انبیاء میں ہیں جن کی وفات ابھی واقع ہی نہیں ہوئی، دو آسمان پر زندہ اٹھا لئے گئے، سیدنا ادریس و سیدنا عیسٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اوریہ دونوں زمین پر تشریف فرما ہیں، دریا سیدنا خضر علیہ السلام کے متعلق ہے اور خشکی سیدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے۔ دونوں صاحبان حج کو ہرسال تشریف لاتے ہیں، بعد حج آب زمزم شریف پیتے ہیں کہ وہی سال بھر تک ان کے کھانے پینے کو کفایت کرتاہے۔
آب حیات کیا ہے ؟ کیا حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آب حیات کیا ہے کیا حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا تھا جس کے وجہ سے وہ ابھی بھی زندہ ہے ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور ویسٹ بنگال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
ہاں حضرت خضر علیہ السلام اب حیات پئے تھے اس وجہ سے آپ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے
حضرت سیدنا خضر علیہ السلام اور حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام زمین پر موجود ہیں اور یہ وہ انبیاء کرام ہیں جن کی وفات ابھی تک واقع نہیں ہوئی ہے نیز حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
سیدنا الیاس علیہ السلام نبی مرسل ہیں اور سیدنا خضر علیہ السلام بھی جمہور کے نزدیک نبی ہیں اوران کوخاص طورسے علم غیب عطا ہواہے، یہ دونوں حضرات ان چار انبیاء میں ہیں جن کی وفات ابھی واقع ہی نہیں ہوئی، دو آسمان پر زندہ اٹھا لئے گئے، سیدنا ادریس و سیدنا عیسٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اوریہ دونوں زمین پر تشریف فرما ہیں، دریا سیدنا خضر علیہ السلام کے متعلق ہے اور خشکی سیدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے۔ دونوں صاحبان حج کو ہرسال تشریف لاتے ہیں، بعد حج آب زمزم شریف پیتے ہیں کہ وہی سال بھر تک ان کے کھانے پینے کو کفایت کرتاہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 26، ص 401، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام کی درازی عمر کے متعلق حضرت علامہ ابو عبداللہ محمدبن احمد انصاری رحمۃ اللہ علیہ تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں: ”قال بعضھم: کان قد مرض و احس الموت فبکی، فاوحی اللہ الیہ: لم تبک؟ حرصاً علی الدنیا، او جزعاً من الموت، او خوفاً من النار؟ قال: لا، و لا شیئ من ھذا و عزتک، انما جزعی کیف یحمدک الحامدون بعدی ولا احمدک! و یذکرک الذاکرون بعدی ولا اذکرک! و یصوم الصائمون بعدی ولا اصوم! و یصلی المصلون ولا اصلی! فقیل لہ: یا الیاس و عزتی لاخرونک الی وقت لا یذکرنی فیہ ذاکر، یعنی یوم القیامۃ“ یعنی بعض نے فرمایا کہ حضرت الیاس علیہ السلام بیمار ہوئے اور آپ نے موت کو محسوس کیا تو رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا دنیا کی حرص میں رو رہے ہیں یا موت کے غم میں یا دوزخ کے خوف سے؟آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ تیری عزت و جلال کی قسم! میرے رونے کا سبب ان میں سے کوئی نہیں بلکہ میں تو اس غم میں رو رہا ہوں کہ میرے بعد تیری حمد کرنے والے حمد کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ تیرا ذکر کرنے والے میرے بعد تیرا ذکر کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ روزہ رکھنے والے میرے بعد بھی روزے رکھیں گے لیکن میں نہیں رکھ سکوں گا۔ نماز پڑھنے والے میرے بعد بھی نماز پڑھیں گے لیکن میں نہیں پڑھ سکوں گا۔ تو آپ سے کہا گیا کہ اے الیاس! میں اس وقت تک تمہاری موت کو مؤخر کروں گا جب دنیا میں کوئی بھی میرا ذکر کرنے والا نہ ہوگا یعنی قیامت تک۔
حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام کی درازی عمر کے متعلق حضرت علامہ ابو عبداللہ محمدبن احمد انصاری رحمۃ اللہ علیہ تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں: ”قال بعضھم: کان قد مرض و احس الموت فبکی، فاوحی اللہ الیہ: لم تبک؟ حرصاً علی الدنیا، او جزعاً من الموت، او خوفاً من النار؟ قال: لا، و لا شیئ من ھذا و عزتک، انما جزعی کیف یحمدک الحامدون بعدی ولا احمدک! و یذکرک الذاکرون بعدی ولا اذکرک! و یصوم الصائمون بعدی ولا اصوم! و یصلی المصلون ولا اصلی! فقیل لہ: یا الیاس و عزتی لاخرونک الی وقت لا یذکرنی فیہ ذاکر، یعنی یوم القیامۃ“ یعنی بعض نے فرمایا کہ حضرت الیاس علیہ السلام بیمار ہوئے اور آپ نے موت کو محسوس کیا تو رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا دنیا کی حرص میں رو رہے ہیں یا موت کے غم میں یا دوزخ کے خوف سے؟آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ تیری عزت و جلال کی قسم! میرے رونے کا سبب ان میں سے کوئی نہیں بلکہ میں تو اس غم میں رو رہا ہوں کہ میرے بعد تیری حمد کرنے والے حمد کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ تیرا ذکر کرنے والے میرے بعد تیرا ذکر کریں گے لیکن میں نہیں کرسکوں گا۔ روزہ رکھنے والے میرے بعد بھی روزے رکھیں گے لیکن میں نہیں رکھ سکوں گا۔ نماز پڑھنے والے میرے بعد بھی نماز پڑھیں گے لیکن میں نہیں پڑھ سکوں گا۔ تو آپ سے کہا گیا کہ اے الیاس! میں اس وقت تک تمہاری موت کو مؤخر کروں گا جب دنیا میں کوئی بھی میرا ذکر کرنے والا نہ ہوگا یعنی قیامت تک۔
(تفسیر قرطبی ج 15، ص 103، مطبوعہ: کوئٹہ)
جبکہ حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے
تفسیر خزاین العرفان میں ہے
ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی ، یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خضر بھی تھے وہ تو چشمہ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا انہوں نے نہ پایا۔“
جبکہ حضرت خضر علیہ السلام کی درازی عمر کا سبب تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے
تفسیر خزاین العرفان میں ہے
ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی ، یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خضر بھی تھے وہ تو چشمہ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا انہوں نے نہ پایا۔“
(خزائن العرفان، پارہ 16، سورۃ الکہف ، زیر آیت 86)
(ایساہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
عجائب القرآن میں ہے
حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے۔
(ایساہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
عجائب القرآن میں ہے
حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے کیونکہ آپ نے آبِ حیات پی لیا ہے۔
(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 161، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
آب حیات یا چشمہ حیات کے بارے میں یہی معلومات کتب میں درج ہیں۔ اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
آب حیات یا چشمہ حیات کے بارے میں یہی معلومات کتب میں درج ہیں۔ اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/08/2023