(سوال نمبر 5065)
مقتدی نے سہوا التحیات ترکیا اور درود پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ ذوی الاحترام اس مسئلہ میں کہ زید مقتدی تھا اور اس حالت میں اس نے قعدہ اخیرہ میں تشہد کی جگہ پہ درود ابراہیم غلطی سے پڑھ لیا ۔سلام کے بعد اسے اس غلطی کا علم ہوا۔کیا زید کی نماز ہوئ یا نہیں؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد مجاہد الاسلام نوادہ بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
قعدہ اولی ہو یا اخیرہ ہو پوری التحیات پڑھنا امام و مقتدی کے لیے واجب ہے مذکورہ صورت میں چونکہ زید نے سہوا التحیات ترک کیا اور درود پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا اس لئے زید کی نماز ہوگئی اگر عمدا التحیات پڑھتا تو نماز واجب الاعادہ ہوتی ۔
واجبات میں سے کسی بھی واجب کو قصداً ترک کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہوجاتی ہے، اس مسئلے میں منفرد اور مقتدی کی کوئی تخصیص نہیں۔
البتہ مقتدی کے لیے اتنی رعایت ضرور ہے کہ امام کے پیچھے بھولے سے واجب چھوٹنے پر اس مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔
فتاوی شامی میں ہے
(ولھا واجبات لا تفسد بترکھا و تعاد وجوباً فی العمد)ای بترک ھذہ الواجبات او واحد منھا“
یعنی نماز میں کچھ واجبات ہیں جن کے ترک کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ ان واجبات کو یا ان میں سے کسی ایک بھی کو واجب کو قصداً ترک کرنے کی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص181، مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً)
فتاویٰ امجدیہ میں ہے واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، ج01، ص 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا
اگرمقتدی نے رکوع یاسجدہ امام کے ساتھ نہ کیا بلکہ امام کے فارغ ہونے کے بعد کیا تو نماز اس کی ہوئی یانہیں؟
آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں ہوگئی اگرچہ بلاضرورت ایسی تاخیر سے گنہگار ہوا اور بوجہ ترک واجب اعادہ نماز کاحکم دیاجائے تحقیق مقام یہ ہے کہ۔(مقتدی نے) اگر بلاضرورت فصل کیا تو قلیل فصل میں جس کے سبب امام سے جا ملنا فوت نہ ہو ترک ِسنت اور کثیر میں جس طرح صورت سوال ہے کہ فعل امام ختم ہونے کے بعد اس نے کیا ترک واجب جس کاحکم اس نماز کو پورا کرکے اعادہ کرنا۔(فتاوٰ ی رضویہ ،ج 07 ،ص 276-275،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً و ملتقطاً)
وقار الفتاوی میں ہے
کسی واجب کو قصداً (جان بوجھ کر)امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی۔ اور اگر امام کے پیچھے سہواً(بھول سے)کوئی واجب چھوٹ گیا تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا (وقار الفتاوی،ج 02، ص210،بزم وقار الدین، کراچی، ملخصاً)
(اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے )
واللہ و رسولہ اعلم باالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/97/2023
مقتدی نے سہوا التحیات ترکیا اور درود پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ ذوی الاحترام اس مسئلہ میں کہ زید مقتدی تھا اور اس حالت میں اس نے قعدہ اخیرہ میں تشہد کی جگہ پہ درود ابراہیم غلطی سے پڑھ لیا ۔سلام کے بعد اسے اس غلطی کا علم ہوا۔کیا زید کی نماز ہوئ یا نہیں؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد مجاہد الاسلام نوادہ بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
قعدہ اولی ہو یا اخیرہ ہو پوری التحیات پڑھنا امام و مقتدی کے لیے واجب ہے مذکورہ صورت میں چونکہ زید نے سہوا التحیات ترک کیا اور درود پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا اس لئے زید کی نماز ہوگئی اگر عمدا التحیات پڑھتا تو نماز واجب الاعادہ ہوتی ۔
واجبات میں سے کسی بھی واجب کو قصداً ترک کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہوجاتی ہے، اس مسئلے میں منفرد اور مقتدی کی کوئی تخصیص نہیں۔
البتہ مقتدی کے لیے اتنی رعایت ضرور ہے کہ امام کے پیچھے بھولے سے واجب چھوٹنے پر اس مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔
فتاوی شامی میں ہے
(ولھا واجبات لا تفسد بترکھا و تعاد وجوباً فی العمد)ای بترک ھذہ الواجبات او واحد منھا“
یعنی نماز میں کچھ واجبات ہیں جن کے ترک کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ ان واجبات کو یا ان میں سے کسی ایک بھی کو واجب کو قصداً ترک کرنے کی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص181، مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً)
فتاویٰ امجدیہ میں ہے واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، ج01، ص 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا
اگرمقتدی نے رکوع یاسجدہ امام کے ساتھ نہ کیا بلکہ امام کے فارغ ہونے کے بعد کیا تو نماز اس کی ہوئی یانہیں؟
آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں ہوگئی اگرچہ بلاضرورت ایسی تاخیر سے گنہگار ہوا اور بوجہ ترک واجب اعادہ نماز کاحکم دیاجائے تحقیق مقام یہ ہے کہ۔(مقتدی نے) اگر بلاضرورت فصل کیا تو قلیل فصل میں جس کے سبب امام سے جا ملنا فوت نہ ہو ترک ِسنت اور کثیر میں جس طرح صورت سوال ہے کہ فعل امام ختم ہونے کے بعد اس نے کیا ترک واجب جس کاحکم اس نماز کو پورا کرکے اعادہ کرنا۔(فتاوٰ ی رضویہ ،ج 07 ،ص 276-275،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً و ملتقطاً)
وقار الفتاوی میں ہے
کسی واجب کو قصداً (جان بوجھ کر)امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی۔ اور اگر امام کے پیچھے سہواً(بھول سے)کوئی واجب چھوٹ گیا تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا (وقار الفتاوی،ج 02، ص210،بزم وقار الدین، کراچی، ملخصاً)
(اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے )
واللہ و رسولہ اعلم باالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/97/2023