Type Here to Get Search Results !

فون پر ایک طلاق دیا پھر چھ ماہ بعد دوسری طلاق دیا کونسی طلاق واقع ہوئی؟

 (سوال نمبر 216)
 فون پر ایک طلاق دیا پھر چھ ماہ بعد دوسری طلاق دیا کونسی طلاق واقع ہوئی؟
 
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو فون کرکے کہا ہم نے تجھے ایک طلاق دیا پھر چھ ماہ بعد فون کرکے ہندہ سے کہا ہم نے تجھے دوسرا طلاق دیا امر طلب یہ ہے کہ زید ہندہ کو اپنی نکاح میں رکھنا چاہ رہا ہے ازروئے شرع کیا حکم ہے برائے کرم مدلل مفصّل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل:-محمد خلیل احمد رسول پور منیاری مظفرپور بہار۔
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
 الله سبحانه و تعالى فرماتا ہے
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔(البقرة، 2: 232)
مسئلہ مسئولہ میں زید کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوئی جب اس نے فون پر ایک طلاق دیا تھا ، زید دوران عدت رجوع کر سکتا تھا جو نہیں کیا یعنی تین حیض کے اندر لہذا عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہوگیا اور ہندہ محل طلاق نہیں رہی اس لئے عدت پوری ہونے کے بعد دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔
یاد رہے طلاق رجعی میں عدت کی مدت ختم ہونے سے پہلے تک نکاح باقی ہوتا ہے اور فریقین کو کسی نئے نکاح کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے، عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہوجاتا ہے اور بیوی محلِ طلاق نہیں رہتی۔ اس لیے عدت پوری ہونے کے بعد دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اگر زید نے واقعی اہک طلاق رجعی دیا اور عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت کے بعد دوسری طلاق کا جملہ فضول ہوگیا کہ چھ ماہ کے بعد ہندہ سے کہا کہ میں نے تچھے دوسری طلاق دیا اس صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے اور لڑکی نیا نکاح کرنے میں آزاد ہے۔ اگر وہ چاہے تو سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کر لے یا کسی اور سے نکاح کرنے میں بھی وہ آزاد ہے۔ واضح رہے بعد النکاح شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض"
(الباب السادس فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 470، ط: ماجديه)
وفيه أيضاً
"إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها" (كتاب الطلاق، فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 473، ط: ماجديه)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات"
والله ورسوله أعلم بالصواب. 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان١٨ سرہا نیپال۔٣٠/١١/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area