(سوال نمبر 5064)
کیا عاشورہ کے دین زمزم کا پانی تمام پانیوں میں ملا دیا جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
کیا فرماتے ہے علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
عاشورہ کے دین زمزم کا پانی تمام پانیوں میں ملا دیا جاتا ہے اور کیا قیامت یوم عاشورہ دین جمعہ کو قائم کی جائگی ؟دونوں روایت صحیح ہے یا نہیں حقیقت کیا ہے؟
جواب عنایت فرمائیں حوالہ کے ساتھ ۔
المستفتی:-محمّد نوشاد عالم بنارس اتر پردیش الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
عاشورہ کی رات آب زم زم شریف کے تمام پانیوں میں پہنچنے کی بات پر کوئی مستند روایت میرے علم میں نہیں ہے۔ البتہ تین کتابوں بلا سند یہ بات صیغۂ تمریض کے ساتھ مذکور ہے۔
معنوی اعتبار سے غور کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ مذکورہ کتب میں "یخرق" کا لفظ آیا ہے جو کہ 'خرق' سے ماخوذ ہے۔ اس کا معنی ہے شگاف کرنا، پھاڑنا، سوراخ کرنا، روشن دان کھولنا وغیرہ۔ ان معانی کی روشنی میں مذکورہ عبارات کا مطلب ہے اللہ تعالی عاشورہ کی شب چاہ زمزم کی حاجز اور اس کی تہہ کو پھاڑ کر آب زمزم کا رشتہ زمین کے اندر موجود تمام پانیوں سے جوڑ دیتا ہے۔ اس طرح زمزم کا پانی زمین میں موجود تمام پانیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا جو پانی شب عاشورہ سے قبل ہی سطح زمین سے نکل کر کسی برتن میں آجائیں، اس کو یہ فضیلت شامل نہیں ۔
خلاصۂ کلام : عاشور کے دن آب زمزم تمام پانیوں میں پہنچنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق بزرگانِ دین کے مجربات سے ہوسکتا ہے؛ علامہ ابن الجوزی نے اس کا انتساب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی ہے، گویا وہ اپنی تحقیق میں اس کو موقوفاً ثابت مانتے ہیں.
١/ تفسیر روح البیان میں ہے
نقل ان اللہ عزوجل یخرق ليلة عاشوراء زمزم الي سائر المياه فمن اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة كما في "الروض الفائق" (تفسير روح البيان ٤ صفحة ١٥٢ دار الكتب العلمية)
٢/ صاحبِ روح البیان کی آخری عبارت كما في الروض الفائق . سے واضح ہے کہ انھوں نے اس کو الروض الفائق سے نقل کیا ہے، الروض الفائق کی طرف رجوع کیا تو وہاں مجھے یہ عبارت ملی
و قد ذكر ان الله تعالي يخرق في تلك الليلة يعني ليلة عاشوراء' زمزم الي سائر المياه فمن اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة.(الروض الفائق في المواعظ والرقائق المجلس الثاني والأربعين صفحة ١٧٧)
[نوٹ: اصل نسخہ دعوت اسلامی کے ویب سائٹ پر موجود ہے۔ حوالہ وہیں سے ماخوذ ہے۔]
٣/ علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی علیہ الرحمہ نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے۔ مگر آپ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ سے مروی نہیں، وہ لکھتے ہیں
و قد ذکر ان اللہ تعالی يخرق فی تلك الليلة زم زم الي سائر المياه فمن استعمل او اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة. و هذا ليس بحديث بل يروي عن علي بن ابن ابي طالب رضي الله عنه.(سلوة الاخزان بما روي عن ذوي العرفان صفحة ٧٣ دار الكتب العلمية بيروت لبنان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023
کیا عاشورہ کے دین زمزم کا پانی تمام پانیوں میں ملا دیا جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
کیا فرماتے ہے علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
عاشورہ کے دین زمزم کا پانی تمام پانیوں میں ملا دیا جاتا ہے اور کیا قیامت یوم عاشورہ دین جمعہ کو قائم کی جائگی ؟دونوں روایت صحیح ہے یا نہیں حقیقت کیا ہے؟
جواب عنایت فرمائیں حوالہ کے ساتھ ۔
المستفتی:-محمّد نوشاد عالم بنارس اتر پردیش الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
عاشورہ کی رات آب زم زم شریف کے تمام پانیوں میں پہنچنے کی بات پر کوئی مستند روایت میرے علم میں نہیں ہے۔ البتہ تین کتابوں بلا سند یہ بات صیغۂ تمریض کے ساتھ مذکور ہے۔
معنوی اعتبار سے غور کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ مذکورہ کتب میں "یخرق" کا لفظ آیا ہے جو کہ 'خرق' سے ماخوذ ہے۔ اس کا معنی ہے شگاف کرنا، پھاڑنا، سوراخ کرنا، روشن دان کھولنا وغیرہ۔ ان معانی کی روشنی میں مذکورہ عبارات کا مطلب ہے اللہ تعالی عاشورہ کی شب چاہ زمزم کی حاجز اور اس کی تہہ کو پھاڑ کر آب زمزم کا رشتہ زمین کے اندر موجود تمام پانیوں سے جوڑ دیتا ہے۔ اس طرح زمزم کا پانی زمین میں موجود تمام پانیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا جو پانی شب عاشورہ سے قبل ہی سطح زمین سے نکل کر کسی برتن میں آجائیں، اس کو یہ فضیلت شامل نہیں ۔
خلاصۂ کلام : عاشور کے دن آب زمزم تمام پانیوں میں پہنچنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق بزرگانِ دین کے مجربات سے ہوسکتا ہے؛ علامہ ابن الجوزی نے اس کا انتساب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی ہے، گویا وہ اپنی تحقیق میں اس کو موقوفاً ثابت مانتے ہیں.
١/ تفسیر روح البیان میں ہے
نقل ان اللہ عزوجل یخرق ليلة عاشوراء زمزم الي سائر المياه فمن اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة كما في "الروض الفائق" (تفسير روح البيان ٤ صفحة ١٥٢ دار الكتب العلمية)
٢/ صاحبِ روح البیان کی آخری عبارت كما في الروض الفائق . سے واضح ہے کہ انھوں نے اس کو الروض الفائق سے نقل کیا ہے، الروض الفائق کی طرف رجوع کیا تو وہاں مجھے یہ عبارت ملی
و قد ذكر ان الله تعالي يخرق في تلك الليلة يعني ليلة عاشوراء' زمزم الي سائر المياه فمن اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة.(الروض الفائق في المواعظ والرقائق المجلس الثاني والأربعين صفحة ١٧٧)
[نوٹ: اصل نسخہ دعوت اسلامی کے ویب سائٹ پر موجود ہے۔ حوالہ وہیں سے ماخوذ ہے۔]
٣/ علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی علیہ الرحمہ نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے۔ مگر آپ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ سے مروی نہیں، وہ لکھتے ہیں
و قد ذکر ان اللہ تعالی يخرق فی تلك الليلة زم زم الي سائر المياه فمن استعمل او اغتسل يومئذ امن من المرض في جميع السنة. و هذا ليس بحديث بل يروي عن علي بن ابن ابي طالب رضي الله عنه.(سلوة الاخزان بما روي عن ذوي العرفان صفحة ٧٣ دار الكتب العلمية بيروت لبنان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023