(سوال نمبر 5090)
کیا اہلِ تشیع سب کے سب کافر ہیں یا بعض صرف گمراہ ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرح اِس مسئلہ کے بارے میں ک کوئ شخص اہلِ تشیع کو کافر کہے تو اُس پر کیا حکم لگے گا اور اہلِ تشیع کو کافر کہنا کیسا اور کیا اہلِ تشیع سب کے سب کافر ہیں یا بعض صرف گمراہ بھی ہیں اور کیا اہلِ تشیع کو سچے دل سے کافر کہنے سے اپنے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑھے گا برائے کرم جواب عنایت فرمائیں
سائل:-عمر فاروق خان ضلع میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
شیعہ ایک فرقہ ہے اور کفر و ارتداد کا حکم من حدیث المجنوع نہیں بلکہ من حدیث الفرد ہے ہرشخص اپنے ایمان کا ذمہ دار ہے کوئی فرقہ اور جماعت زمہ دار نہیں ہے ۔اس لئے سب شیعہ کافر نہیں بلکہ ان کے کافر ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں اور ہرصورت کا حکم جداگانہ ہے۔
(1) اول یہ کہ ان میں سے کسی شخص یا فرقہ کے تعلق یقینی طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے، اگرچہ انکار میں تاویل بھی کرتا ہو اور صاف انکار کرنے سے تبری بھی کرتا ہو، مثلاً قرآن مجید کے محرف و ناقابل اعتبار ہونے پر اگر کسی شخص کی ایسی عبارت ہے کہ اس سے یقینی طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے، پھر اس کے باوجود اپنی عبارت کو غلط مان کر اس سے رجوع ظاہر نہیں کرتا مگر عقیدہ تحریف قرآن سے تبری کرتا ہے تو اس تبری کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ باتفاق و باجماع کافر و مرتد ہے، اس کے ساتھ کسی قسم کا اسلامی معاملہ رکھنا جائز نہیں نہ اس سے کسی مسلمان کا نکاح جائز ہے اور نہ اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی
کما في رد المحتار نعم لا شک في تکفیر مَن قذف السیدة عائشة أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوہیة في علي أو أن جبریل غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن (شامي مع الدر، کتاب الجہاد باب المرتد مطلب مہم في حکم سبّ الشیخین: ۶/۳۷۸)
(2) دوم صورت یہ ہے کہ کسی شخص یا فرقہ کے متعلق یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر نہیں ہے مگر جمہور امت کے خلاف حضرت علی کو افضل الصحابہ اور خلیفہ اول سمجھتا ہے تو ایسا شخص یا فرقہ فاسق وگمراہ ہے مگر کافر و مرتد نہیں
وہ گمراہ اور کی اقتدا میں نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، ہاں! اگر نمازِ جمعہ اور عیدین کے لیے کوئی غیر تفضیلی سنی امام نہ مل سکے تو بمجبوری جمعہ اور عیدین اس کے پیچھے پڑھ لیں گے۔ ایسوں سے سلام و کلام اور ان کی دعوت سے اجتناب کا حکم ہے ۔ایسوں کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے اور ان کو ایصالِ ثواب سے ضرور ضرور بچنا چاہیے۔لیکن تفضیلی شیعہ کافر نہیں اس لیےان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے۔ایسے لوگ اگر سنیوں کی مسجد میں سنی عوام کو بہکائیں اور اپنے مذہب کی طرف بلائیں تو ان کو مسجد میں آنے سے روکا بھی جائے گا۔
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں
تمام اہل ِسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہما مولیٰ علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے افضل ہیں، ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے (فتاویٰ رضویہ ج ١ص ١٥٩ مكتبة المدينة)
ایک مقام پر فرماتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے اور ان کے لئے دعا وطلب مغفرت کرنی چاہئے بالخصوص جس جس کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی ہے اور اس سے راضی ہوا ہے اس سے وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے پس اگر ان پر طعن و سب کرنے والا دلائل قطعہ کا منکر ہے تو کافر ورنہ مبتدع و فاسق، (فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ١٣٣ مكتبة المدينة)
٣/ تیسری صورت یہ ہے کہ یقینی طور پر کسی امر کا ثبوت نہ ملے یعنی نہ اس کا یقین ہے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے اور نہ اس کا کہ منکر نہیں ہے بلکہ ایک مشتبہ حالت ہے اور اشتباہ اس وجہ سے ہے کہ اس فرقے کے عقائد واقوال ہی مشتبہ ہیں یا اس وجہ سے کہ اس شخص کے متعلق یہ یقین نہیں کہ اس کا تعلق باعتبار مذہب وعقائد کس فرقہ سے ہے ایسے لوگوں کے متعلق شرعی فیصلہ بھی دشوار ہے اس میں احوط و اسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم لگایا جائے اور نہ اسلام کا۔ اول میں تو خود اس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے، پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا یعنی نہ اس سے عقد مناکحت کی اجازت دیں گے نہ اس کی اقتداء کریں گے، اگر تحقیق کی قدرت ہو اس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہو تو سکوت کریں گے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں گے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔27/07/2023
کیا اہلِ تشیع سب کے سب کافر ہیں یا بعض صرف گمراہ ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرح اِس مسئلہ کے بارے میں ک کوئ شخص اہلِ تشیع کو کافر کہے تو اُس پر کیا حکم لگے گا اور اہلِ تشیع کو کافر کہنا کیسا اور کیا اہلِ تشیع سب کے سب کافر ہیں یا بعض صرف گمراہ بھی ہیں اور کیا اہلِ تشیع کو سچے دل سے کافر کہنے سے اپنے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑھے گا برائے کرم جواب عنایت فرمائیں
سائل:-عمر فاروق خان ضلع میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
شیعہ ایک فرقہ ہے اور کفر و ارتداد کا حکم من حدیث المجنوع نہیں بلکہ من حدیث الفرد ہے ہرشخص اپنے ایمان کا ذمہ دار ہے کوئی فرقہ اور جماعت زمہ دار نہیں ہے ۔اس لئے سب شیعہ کافر نہیں بلکہ ان کے کافر ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں اور ہرصورت کا حکم جداگانہ ہے۔
(1) اول یہ کہ ان میں سے کسی شخص یا فرقہ کے تعلق یقینی طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے، اگرچہ انکار میں تاویل بھی کرتا ہو اور صاف انکار کرنے سے تبری بھی کرتا ہو، مثلاً قرآن مجید کے محرف و ناقابل اعتبار ہونے پر اگر کسی شخص کی ایسی عبارت ہے کہ اس سے یقینی طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے، پھر اس کے باوجود اپنی عبارت کو غلط مان کر اس سے رجوع ظاہر نہیں کرتا مگر عقیدہ تحریف قرآن سے تبری کرتا ہے تو اس تبری کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ باتفاق و باجماع کافر و مرتد ہے، اس کے ساتھ کسی قسم کا اسلامی معاملہ رکھنا جائز نہیں نہ اس سے کسی مسلمان کا نکاح جائز ہے اور نہ اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی
کما في رد المحتار نعم لا شک في تکفیر مَن قذف السیدة عائشة أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوہیة في علي أو أن جبریل غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن (شامي مع الدر، کتاب الجہاد باب المرتد مطلب مہم في حکم سبّ الشیخین: ۶/۳۷۸)
(2) دوم صورت یہ ہے کہ کسی شخص یا فرقہ کے متعلق یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر نہیں ہے مگر جمہور امت کے خلاف حضرت علی کو افضل الصحابہ اور خلیفہ اول سمجھتا ہے تو ایسا شخص یا فرقہ فاسق وگمراہ ہے مگر کافر و مرتد نہیں
وہ گمراہ اور کی اقتدا میں نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، ہاں! اگر نمازِ جمعہ اور عیدین کے لیے کوئی غیر تفضیلی سنی امام نہ مل سکے تو بمجبوری جمعہ اور عیدین اس کے پیچھے پڑھ لیں گے۔ ایسوں سے سلام و کلام اور ان کی دعوت سے اجتناب کا حکم ہے ۔ایسوں کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے اور ان کو ایصالِ ثواب سے ضرور ضرور بچنا چاہیے۔لیکن تفضیلی شیعہ کافر نہیں اس لیےان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے۔ایسے لوگ اگر سنیوں کی مسجد میں سنی عوام کو بہکائیں اور اپنے مذہب کی طرف بلائیں تو ان کو مسجد میں آنے سے روکا بھی جائے گا۔
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں
تمام اہل ِسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہما مولیٰ علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے افضل ہیں، ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے (فتاویٰ رضویہ ج ١ص ١٥٩ مكتبة المدينة)
ایک مقام پر فرماتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے اور ان کے لئے دعا وطلب مغفرت کرنی چاہئے بالخصوص جس جس کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی ہے اور اس سے راضی ہوا ہے اس سے وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے پس اگر ان پر طعن و سب کرنے والا دلائل قطعہ کا منکر ہے تو کافر ورنہ مبتدع و فاسق، (فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ١٣٣ مكتبة المدينة)
٣/ تیسری صورت یہ ہے کہ یقینی طور پر کسی امر کا ثبوت نہ ملے یعنی نہ اس کا یقین ہے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے اور نہ اس کا کہ منکر نہیں ہے بلکہ ایک مشتبہ حالت ہے اور اشتباہ اس وجہ سے ہے کہ اس فرقے کے عقائد واقوال ہی مشتبہ ہیں یا اس وجہ سے کہ اس شخص کے متعلق یہ یقین نہیں کہ اس کا تعلق باعتبار مذہب وعقائد کس فرقہ سے ہے ایسے لوگوں کے متعلق شرعی فیصلہ بھی دشوار ہے اس میں احوط و اسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم لگایا جائے اور نہ اسلام کا۔ اول میں تو خود اس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے، پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا یعنی نہ اس سے عقد مناکحت کی اجازت دیں گے نہ اس کی اقتداء کریں گے، اگر تحقیق کی قدرت ہو اس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہو تو سکوت کریں گے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں گے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔27/07/2023