Type Here to Get Search Results !

کیا دار الحرب میں سود لینا دینا جائز ہے؟

(سوال نمبر ١٨٢)

کیا دار الحرب میں سود لینا دینا جائز ہے؟

:----------------------

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ سود لینا دینا دونوں حرام ہے لیکن دار الحرب میں سود لینا دینا جائز ہے اور ہے تو اس کی صورت کیا ہے مفتیان کرام رہنمائی فرمائیں۔

سائل:- محمد جہانگیر عالم پورینہ لعل گنج ویشالی بہار انڈیا ۔

:-----------------

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 

سُود لینا، دینا، گواہ بننا یا تحریر کرنا شرعاً گناہ کبیرہ ہے اور سخت گناہ ہے، اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنا ہے۔ دار الحرب کا مال تو ہمارے لیے جائز ہے۔ سُود، خنزیر، مردار، شراب، جوا اور باقی حرمتیں مسلمان کے لیے ہر جگہ اور ہر وقت اور ہر کسی کے لیے حرام ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ مسلمان پر دارالاسلام میں تو سُود، جوا، رشوت، شراب، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، بدکاری، فحاشی، عریانی، نشہ، بددیانتی، بدعہدی، جھوٹ، دھوکہ حرام ہوں، اور جونہی دارالکفر یا دار الحرب آ جائے تو یہ سب حلال ہو جائیں۔ ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی، بھتیجی، بھانجی اور مشرکہ کافرہ سے نکاح کرنا دارالاسلام میں ناجائز و حرام ہے تو دار الحرب یا دار الکفر میں بھی ناجائز و حرام ہی ہوگا۔

اسی طرح مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،

صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں، (بہار شریعت ح١١ ص ٧٧٢، صحیح مسلم ‘‘ ،کتاب المساقاۃ ۔إلخ، باب لعن آ کل الرباومؤکلہ،الحدیث: ۱۰۵-۱۰۶(۱۵۹۷) ،ص ۸۶۲.)

جیسا کہ مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

صحیح حدیث میں ہے:لعن رسول اﷲ صلی اﷲ تعا لی علیہ وسلم اکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سود لینے والے اور اس کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہیاں کرنے والو پر ، اور فرمایا وہ سب برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم باب الربا)(فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ١٣٧ )

سُود (الربوٰ) قرآن و سنت اور اجماع امت اور قیاس شرعی یعنی عقل و نقل ہر لحاظ سے حرام قطعی ہے۔ لینے والا، دینے والا، گواہ اور لکھنے والا سب اس گناہ کبیرہ میں برابر کے شریک ہیں۔

سود کی دو قسمیں ہیں :

(١ ) ربٰو النّسیئۃ:

قرض پر کچھ اضافہ بطور شرط۔

(٢) ربٰو الفضل:

ناپ تول میں آنے والے ہم جنس کا باہمی تبادلہ ایک طرف سے زیادتی کی شرط کے ساتھ۔

پہلی قسم کی حرمت قرآن پاک سے اور دوسری قسم کی حرمت حدیث پاک سے ثابت ہے۔

 ہم پہلے دار الحرب کی تعریف اور پھر اس کے احکام بیان کریں گے۔

 الدر المختار میں ہے 

(لا تصير دار الاسلام دار حرب الا) بأمور ثلاثة : (باِجراء أحکام أهل الشرک، و باتصالها بدار الحرب، و بأن لا يبقی فيها مسلم أو ذمی آمنا بالأمان الأول) علی نفسه (و دار الحرب تصير دار الاسلام باِجراء أحکام أهل الاسلام فيها) کجمعة و عيد.

دار الاسلام صرف تین باتوں سے دار الحرب بنتا ہے:

( ١) کفار و مشرکین کے احکام نافذ ہوں۔ مسلمان یا ذمی باقی نہ رہے۔

اور دار الحرب اسلامی احکام نافذ ہونے سے دار الاسلام ہو جاتا ہے؛جیسے نماز و عید (شامی، در المختار، 4 : 175، کراچی)

امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ اور صاحبین کا مذہب یہ ہے کہ دار الاسلام سے دار الحرب بننے میں صرف ایک شرط ہے:

اظهار حکم الکفر۔ 

احکام کفر کا اظہار

لو أجريت احکام المسلمين، و أحکام أهل الشرک لا تکون دار حرب.

اگر مسلمانوں کے احکام بھی چلتے ہیں ہوں اور مشرکین کے احکام بھی نافذ ہوں تو وہ ملک دار الحرب نہیں‘‘۔(شامی، در المختار، 4 : 175، کراچی)

امام ابو يوسف فرماتے ہیں :

لا يجوز للمسلم فی دار الحرب الا مايجوز له فی دار الاسلام.

مسلمان کے لیے دار الحرب میں صرف وہی جائز ہے جو دار الاسلام میں‘‘۔ اور یہی حق ہے۔

علامه کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 132

ان حرمة الربا ثابتة فی حق العاقدين اما فی حق المسلم فظاهر، و اما فی حق الحربی فلان الکفار مخاطبون بالحرمات و قال تعالٰی جلّ شانه : و اخذ هم الربا و قد نهوا عنه .

سود کی حرمت دونوں فریقوں (مسلم اور غیر مسلم)  کے حق میں ثابت ہے۔ مسلمان کے حق میں تو ظاہر ہے۔ حربی کے حق میں حرمت اس لیے ثابت ہے کہ کافر حرمتوں کے مخاطب ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ان (یہودیوں) کے سود لینے کی وجہ سے اُن پر لعنت کی گئی حالانکہ ان کو اس سے منع کیا گیا تھا‘‘۔

قوله عليه الصلٰوة و السلام: لا ربا بين المسلم و الحربی فی دار الحرب.

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : مسلمان اور حربی کافر کے درمیان دار الحرب میں سُود نہیں‘‘۔

جس طرح مسلمانوں کے لیے ذمیوں اور مستامنوں سے سُودی لین دین جائز نہیں حربیوں سے بھی ربیٰ سُود جائز نہیں

قرآن میں اللہ تعالی کا فرمان 

 لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا.’’سُود نہ کھاؤ‘ مطلق ہے اور مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے، 

والله ورسوله أعلم بالصواب 

 کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ سرها ،

 خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔

٥/١١/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area