ہمارے روز مرہ کی زندگی میں آنے والے خواب کی شرعاً حقیقت کیا ہے؟
:----------
بسم الله الرحمن الرحيم
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
خواب چار قسموں پر مشتمل ہے ۔
(١) حدیث نفس، جو خیالات انسانی قلب پر غالب رہے جب وہ سوتا ہے تو اس کی طرف سے حواس معطل ہوجاتا ہے، عالم مثال بقدر استعتاد منکشف ہوتا ہے انہیں تخیلات کی شکلیں سامنے آنے لگتی ہے اس خواب کو مہمل اور بے معنی خواب کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس میں داخل ہے وہ شئی جو کسی خلط کے غلبہ سے اس کے مناسبات نظر آتے ہیں، جیسے صفراوی آگ دیکھے، بلغمی پانی،
(٢) دوسرا خواب القاء شیطان ہے ،اور یہ اکثر وحشتناک ہوتا ہے، شیطان سونے والے کو ڈراتا یا خواب میں اس کے ساتھ کھیلتا ہے، اس کے بارے میں حکم ہے کہ کسی سے اس خواب کا ذکر نہ کیا جائے، تاکہ تمہیں ضرر نہ دے، اگر کوئی ایسا خواب دیکھے تو بائیں طرف تین بار تھوک دینی چاہئے، اور اعوذ پڑھنی چاہئے ۔اور بہتر یہ ہے کہ وضو کر کے دو رکعت نفل نماز پڑھ لے،
(٣) تیسرا خواب القاء فرشتہ ہے، اس سے گذشتہ و موجودہ و آئندہ غیب ظاہر ہوتے ہیں، مگر اکثر پردہ تاویل قریب یا بعید میں ۔اس لئے یہ خواب محتاج تعبیر ہوتا ہے،
(٤) چوتھا خواب اللہ رب العزت بلا واسطہ القاء فرمائے وہ صاف اور صریح ہوتا ہے، اور وہ خواب احتیاج تعبیر سے بری ہوتا ہے. (فتاویٰ رضویہ ج ٢٩ ص ٨)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ اکثر لوگ نمبر دو کا خواب زیادہ دیکھتے ہیں،
اس لئے شرعا خوابوں کے بابت ہمیں احتیاط برتنی چاہئے ۔
قرآن و سنت میں کئی مقامات پر تفصیلا ذکر ہے اور اسلام میں خواب کی اپنی ایک حقیقت ہے ۔
یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کا مطلقًا خواب کا انکار کر دینا کہ سرے سے خواب یا رویائے صالحہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا یہ گمان کرنا کہ خواب محض جھوٹ اور من گھڑت ہے، ایسا رویہ جہالت اور لا علمی ہے، کیونکہ خواب کے وجود اور تصور کا صراحتًا انکار کر دینا کفر ہے۔ اس لئے کہ خواب کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے اور خود سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
!لله تعالی فرماتا ہے
الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (يونس، 10 : 63، 64)
(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)۔
قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں ہے کہ بشارت سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو اللہ رب العزت ایمان والوں کو عطا کرتا ہے۔
سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ.(يوسف، 12 : 6)
اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ نے تعبیر الرویا کے باب میں ایک حدیث پاک نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من لم يومن بالرويا الصالحه لم يومن باﷲ ولا باليوم الآخرة.
(نابلسي، تعطير الانام في تعبير المنام : 3)
جو شخص نیک خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لم يبق من النبوة الا المبشرات ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب التعبير، باب المبشرات، 6 : 2564، رقم : 6589)
اب نبوت باقی نہیں رہی (ہاں اس کا فیض) مبشرات کی صورت میں باقی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ’’وما المبشرات؟‘‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبشرات سے کیا مراد ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الرویا الصالحہ‘‘ (مبشرات سے مراد نیک خواب ہیں)۔ گویا اب قیامت تک کوئی نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو کرے گا وہ کافر و مرتد ہو گا۔ نبوت فیضان مبشرات کی صورت میں قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
دوسرے مقام پر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبي قال فشق ذلک علي الناس فقال لکن المبشرات.
(ترمذي، السنن، کتاب الرؤيا عن رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، 4 : 533، رقم : 2272)
میرے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب کوئی رسول آ سکتا ہے نہ کوئی نبی لیکن میرے بعد مبشرات اور بشارتیں ہوں گی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ نیک خواب جو اہل ایمان کو آتے ہیں۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ايها الناس لم يبق من مبشرات النبوة الا الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له.۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب تعبير الرويا، باب الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له، 3 : 1283، رقم : 3899)
اے لوگوں مبشرات نبوت میں ماسوائے نیک خوابوں کے جو کسی مومن کو دکھائی دیتے ہیں کچھ بھی باقی نہیں رہا، گویا اب نبوت من کل الوجود ختم کر دی گئی ہے۔ نبوت کے سارے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں لیکن ایک چیز جو اللہ نے میری امت کے لیے بطور نعمت باقی رکھی ہے وہ اہل ایمان کو دکھائے جانے والے نیک خواب و مبشرات ہیں۔
صحیح بخاری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الرويا الصالحه من اﷲ۔(بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، (باب صفة ابليس و جنوده، 2 : 1198، رقم : 3118)
نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اصدق الرويا بالاسحار
(ترمذي، السنن، کتاب الرويا عن رسول الله، باب قوله لهم البشري في الحياة الدنيا، 4 : 534، رقم : 2274)
وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پھر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
فان راي رويا حسنة فليبشر۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، 1772، رقم : 2261)
جو کوئی اچھا، نیک خواب دیکھے تو اس پر خوش ہو۔
سنن ابن ماجہ میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اگر اچھا اور پسندیدہ خواب دیکھے تو جس سے مناسب سمجھے بیان کرے۔ ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کوئی برا خواب دیکھے وہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔
سنن ابی داؤد میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ثم ليتعوذ من شره۔ (ابو داود، السنن، کتاب الادب، باب ماجاء في الرويا، 4 : 305، رقم : 5021
(جو کوئی برا خواب دیکھے) تو اس کے شر سے اللہ کے حضور پناہ مانگے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب کے آداب بیان کیے اور خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
الرويا ثلاث فالرويا الحسنة بشري من اﷲ عزوجل والرويا يحدث بها الرجل نفسه والرويا تحزين من الشيطن۔ (حاکم، المستدرک، 4 : 422، رقم : 8174)
خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ۔٩=١١=٢٠٢٠