Type Here to Get Search Results !

ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اور چہرہ پر پھیرنا کیسا ہے؟

(سوال نمبر 4028)
ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اور چہرہ پر پھیرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرض نماز کے بعد جو دعا مانگی جاتی ہے ہاتھ اٹھاکر اور ہاتھ کو چہرے پر پھیرا جاتا ہے اسکا کوئی ثبوت ہے قرآن وحدیث میں جواب بحوالہ ارسال فرمائیں نوازش ہوگی 
سائل:-محمد قاسم علی کیلالی نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا اور پھر دعا کے بعد  ہاتھوں کو  اپنے منہ پر پھیر لینا سنت ہے آقا علیہ السلام دعا میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک نہ رکھتے جب تک کہ اپنے منہ پر نہ پھیر لیتے۔ (ترمذی)
آقا علیہ السلام نے فرمایا
  جس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو تو اپنے ہاتھوں کے اندرونی رخ کے ذریعے مانگو، اس سے اپنے ہاتھوں کے اوپر کے رخ کے ذریعہ نہ مانگو۔
 آقا علیہ السلام نے فرمایا 
کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کے اندرونی رخ کے ذریعہ مانگو اور جب تم دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر پھیر لو  (تاکہ وہ برکت جو ہاتھوں پر اترتی ہے منہ کو بھی پہنچ جائے)۔
  آقا علیہ السلام جب دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تو اپنے منہ پر دونوں ہاتھوں کو پھیرتے۔ (سنن الترمذي ت شاكر (5/ 464):
عن عمر بن الخطاب، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع يديه في الدعاء، لم يحطهما حتى يمسح بهما وجهه» قال محمد بن المثنى في حديثه: لم يردهما حتى يمسح بهما وجهه: «هذا حديث غريب".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1536):
وعن السائب بن يزيد عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه. روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في «الدعوات الكبير»". 
(وعن السائب بن يزيد، عن أبيه «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا، فرفع يديه» ) : عطفاً على دعا (مسح وجهه بيديه) : قال ابن حجر: جواب إذا، والصواب أنه خبر كان، وإذا ظرف له. قال الطيبي رحمه الله: دل على أنه إذا لم يرفع يديه في الدعاء لم يمسح، وهو قيد حسن؛ لأنه صلى الله عليه وسلم كان يدعو كثيراً، كما في الصلاة والطواف وغيرهما من الدعوات المأثورة دبر الصلوات، وعند النوم، وبعد الأكل، وأمثال ذلك، ولم يرفع يديه، لم يمسح بهما وجهه".
(مشكاة المصابيح (2/ 694):
وَعَنْ مَالِكِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا».وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «سَلُوا اللَّهَ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا فَإِذَا فَرَغْتُمْ فامسحوا بهَا وُجُوهكُم»".
المرات میں ہے 
کیونکہ پھیلے ہوئے ہاتھوں پر اﷲ کی رحمت اترتی ہے ۔ ان ہاتھوں کے منہ پر پھیر لینے سے رحمت منہ پر پہنچ جاتی ہے ۔ یہ عملی سنت بھی ہے ۔ اتباع سنت میں برکت ہے ۔ (مرأۃ المناجیح ، جلد 3 ج، ص 298 ، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، کراچی )
اوریہی عمل صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت وہب بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ تابعی بزرگ فرماتے ہیں:’ رأيت ابن عمر و ابن الزبير يدعوان يديران بالراحتين على الوجه 
 میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ جب  دعا کرتے ، تو اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیر لیتے ۔
( الادب المفرد للامام البخاری ، باب رفع الایدی فی الدعاء ، صفحہ 214 ، مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت )
اس عمل کے سنت ہونے سے متعلق در مختار میں ہے  والمسح بعده على وجهه سنة 
 دعا کے بعد ہاتھ منہ پر  پھیرنا سنت ہے ۔
 ( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوٰۃ ، ج 2 ، ص 264 ، مطبوعہ کوئٹہ )    
فتاوی رضویہ میں ہے 
’دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنا مسنون ہوا کہ حصول مراد قبول دعا کی فال ہو ۔ گویا دونوں ہاتھ خیروبرکت سے بھرگئے ، اس نے وہ برکت اعلیٰ و اشرف اعضا پر اُلٹ لی کہ اس کے توسط سے سب بدن کو پہنچ جائے گی۔‘
( فتاویٰ رضویہ بحوالہ فتاویٰ اہل سنت)
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
12_07_2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area