Type Here to Get Search Results !

میں غیر مقلد ہونا چاہتا ہوں،یہ جملہ کہنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر ١٤٠)


میں غیر مقلد ہونا چاہتا ہوں،یہ جملہ کہنا کیسا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
علماء کرام اور مفتیان عظام کی بارگاہ میں بڑے ادب کے ساتھ ایک سوال ہے کسی غیر مقلد کے سامنے یہ جملہ کہنا اسکو چھیڑنے کے لیئے میں غیر مقلد ہونا چاہتا ہوں کیسا ہے حرام ہے یا ناجائز ہے یا منع ہے؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین و نوزش ہوگا۔
سائل:- شمس الضحی ازہری گورکھپور الھند ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
 
وعليكم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونه تعالى عز وجل،
 
صورت مستفسره میں تقلید کا مطلق انکار کفر ہے، مطلق تقلید فرض ہے، اور تقلید شخصی واجب ہے، اس لئے قائل سے پوچھا جائے گا کہ اس کی مراد کیا ہے ۔قبل ازیں اس پر شرعا حکم لگا یا جائے ۔بہرحال اس طرح کے الفاظ سے اجتناب از حد ضروری ہے ۔کم از کم اپنے قول سے رجوع کر کے توبہ و استغفار کریں ۔حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی یہ چاروں مسالک برحق اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں، انکی بنیاد قرآن وسنت، اجماع اور قیاس پر ہے، ان مذاہب اربعہ کے متبعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی راہ پر قائم ہیں، ان سے خروج کرنا اور غیرمقلدیت کی راہ اختیار کرنا اتباع ہوی اور نفسانیت ہے جو شرعاً مذموم ہے، غیرمقلد بننا خود کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنا ہے۔غیر مقلدین: یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے ﷲ عزوجل اور نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کی شان میں بکی ہیں، غیر مقلدین سے ثابت نہیں، باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں اور ان حال کے اشد
دیو بندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر ان قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور ان کی نسبت حکم ہے کہ جو ان کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر ان کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمہ دین کو سب و شتم سے یاد کرتے ہیں۔ مگر حقیقۃ تقلید سے خالی نہیں، ائمہ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطان لعین کے ضرور مقلد ہیں۔ یہ لوگ قیاس کے منکر ہیں اور قیاس کا مطلقا انکار کفر،تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقا انکار کفر۔ مطلق تقلید فرض ہے۔
اور تقلید شخصی واجب۔ (بہار شریعت ح ١ص ٢٣٥)
(في''الفتاوی الہندیۃ''، الباب التاسع، أحکام المرتدین، ج۲، ص۲۷۱: (رجل قال: قیاس أبيحنیفۃ رحمہ اللہ تعالی حق نیست یکفرکذا في ''التتارخانیۃ''). ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۲.
''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۰.
''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۱، ص۴۰۴، ج۲۹، ص۳۹۲.
'الفتاوی الرضویۃ''، ج۶، ص۷۰۳ ۔ ۷۰۴.)
اس دنیا میں جتے لوگ ہیں مسلم یا  غیر مسلم، غیر مسلم پر شرعی احکامات نافذ نہیں ہوتے ۔اب رہا مسلم،   مسلم مکلف دو طرح کے ہوتے ہیں ایک مجتہد اور دوسرا غیر مجتہد ۔
1 مجتہد وہ ہے جس میں اس قدر عملی لیاقت ہو کہ قرآنی اشارات کے رموز اور قرآن کے مقاصد کو پہچان سکے، اور اس سے مسائل نکال سکے، ناسخ و منسوخ، علم صرف و بلاغت وغیرہ میں پوری مہارت تامہ حاصل ہو، تمام آیات و احادیث پر عمیق نظر رکھتا ہو ذکی خوش فہم ہو، جو اس درجہ پر نہ ہو ،وہ غیر مجتہد یا مقلد ہے اور غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے، اور مجتہد کے لئے تقلید ممنوع،
طبقات مجتہد(٦) چھ ہیں،
(١) مجتهد في الشرع جیسے ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم
(٢) مجتهد في المذنب جیسے صاحبین و ابن مبارک رضی اللہ عنہم
(٣) مجتهد في المسائل جیسے امام طحاوی و قاضی خان و سرخسی وغیرہم
(٤) اصحاب التخريج جیسے امام کرخی وغیرہ
(٥)اصحاب الترجيح جیسے قدوری و ہدایا وغیرہ
(٦) اصحاب التميز، صاحب کنز در مختار وغیرہ
جن میں ان ٦ وصفوں میں سے کچھ بھی نہ ہوں تو وہ مقلد محض ہیں، جیسے ہم اور ہمارے زمانے کے سارے علماء، انکا کام کتاب سے مسائل دیکھ کر لوگوں کو بتادیں ۔۔ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے، ان چھ طبقات میں جو جس درجے کے مجتہد ہوں گے وہ اس درجے میں کسی کی تقلید نہیں کریں گے، پر اپنے سے اوپر والے درجے میں مقلد ہوں گے، مزید معلومات کے لئے مقدمہ شامی بحث طبقات الفقہاء دیکھ سکتے ہیں ۔(بحوالہ جاء الحق ص ٤) یہ میں نے علم میں اضافہ کے لئے تحریر کیا ہے ۔
انہیں یہ سب بتا یا جائے اور ان کی اصلاح کی جائے ۔ممکن ہے وہ لا علم ہو ۔ مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ اگر کسی کلام میں  99 اِحتِمال کُفرکے ہوں  اور ایک اسلام کا تو واجِب ہے کہ احتِمالِ اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خِلاف ثابِت نہ ہو ۔  (فتاوٰی رضویہ  ج۱۴ص۶۰۴، ۶۰۵)
    مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں   بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اُس شخص کی تکفیر نہیں   کی جائے گی ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنیٔ کفر کا ارادہ کیا مَثَلاً وہخود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی ہے تو کلام کا مُحْتَمَل ہونا نفع نہ دےگا ۔  یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر  ہونا ضَرور نہیں ۔( بہارِ شریعت ج ۹ ص ۱۷۳ )
یہ ایک دقیق و باریک مسئلہ ہے اشد احتیاط  کی حاجت ہے ۔
مگرکیا وہ لوگ اس بات سے نہیں ڈرتے کہ بے شمار روایات اس پر ناطق ہیں کہ کسی مسلمان کوکافر قرار دینا کفر ہے۔ چنانچہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ جس آدمی نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر ان دونوں میں سے کسی ایک پر پلٹ جائے گا، لہذا اگر کہنے والے کے مطابق وہ کافر ہے تو وہی کافر ہوگا ورنہ کہنے والے پر کفر لوٹ آئے گا، امام مسلم اور امام ترمذی نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس حدیث کو روایت کیا۔
فتاوی التاتارخانیۃ (۵۱۳/۵):
"ولوقال لمسلم أجنبي: یا کافر، أو لأجنبیة: یاکافرة، ولم یقل المخاطب شیئاً، أو قال لامرأته: یا کافرة ولم تقل المرأة شیئاً … والمختار للفتوی في جنس هذه المسائل أن القائل بمثل هذه المقالات إن کان أراد الشتم ولایعتقده کافراً لایکفر، وإن کان یعتقده کافراً فخاطبه بهذا بناءً علی اعتقاده أنه کافر یکفر". 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 69):
"(وعزر) الشاتم (بيا كافر) وهل يكفر إن اعتقد المسلم كافراً؟ نعم، وإلا لا، به يفتى، شرح وهبانية، ولو أجابه: لبيك، كفر، خلاصة. وفي التتارخانية: قيل: لايعزر ما لم يقل: يا كافر بالله؛ لأنه كافر بالطاغوت، فيكون محتملاً.
(قوله: بيا كافر) لم يقيد بكون المشتوم بذلك مسلماً لما يذكره بعد (قوله: إن اعتقد المسلم كافراً نعم) أي يكفر إن اعتقده كافراً لا بسبب مكفر. قال في النهر: وفي الذخيرة: المختار للفتوى أنه إن أراد الشتم ولايعتقده كفراً لايكفر، وإن اعتقده كفراً فخاطبه بهذا بناءً على اعتقاده أنه كافر يكفر؛ لأنه لما اعتقد المسلم كافراً فقد اعتقد دين الإسلام كفراً. اهـ". مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح۔
فتاوی تتارخانیہ میں ہے:
"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك"
. ( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤،

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان  ١٨ سرہا خادم البرقي دار الافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال
٢٩/٩/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area