(سوال نمبر 4079)
زید نے اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے اور اگر عورت بھی اپنے شوہر کو اسی طرح کہے تو کیا حکم شرع ہوگا
برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
جو چیز شرعاً حلال ہے اسے کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوتی البتہ مذکورہ صورت میں قسم منعقد ہوگئ زید نے جب اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے اب بیوی کے ہاتھ سے پکے ہوئے کھانا کھانے کی صورت میں قسم ٹوٹ گئی اور قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہے
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے اور اگر کوئی قسم اٹھانے والا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
قرآن مجید میں ہے
لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(المائدة: 89)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
"(ومن حرم) أي على نفسه ... (شيئا) (ثم فعله) بأكل أو نفقة .. (كفر) ليمينه، لما تقرر أن تحريم الحلال يمين". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 729)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 725)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 714)
اس بابت مرد وزن دونوں کے لیے یہی حکم ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/97/2023
زید نے اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے اور اگر عورت بھی اپنے شوہر کو اسی طرح کہے تو کیا حکم شرع ہوگا
برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد مفید عالم صمدی اتردیناجپور ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
جو چیز شرعاً حلال ہے اسے کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوتی البتہ مذکورہ صورت میں قسم منعقد ہوگئ زید نے جب اپنی بیوی سے کہا تمہارے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا میرے لئے حرام ہے اب بیوی کے ہاتھ سے پکے ہوئے کھانا کھانے کی صورت میں قسم ٹوٹ گئی اور قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہے
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے اور اگر کوئی قسم اٹھانے والا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
قرآن مجید میں ہے
لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(المائدة: 89)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
"(ومن حرم) أي على نفسه ... (شيئا) (ثم فعله) بأكل أو نفقة .. (كفر) ليمينه، لما تقرر أن تحريم الحلال يمين". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 729)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 725)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 714)
اس بابت مرد وزن دونوں کے لیے یہی حکم ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/97/2023