Type Here to Get Search Results !

وکالت کی پڑھائی کرنا کیسا جائز ہے یا نہیں ؟

 (سوال نمبر 6032)
وکالت کی پڑھائی کرنا کیسا جائز ہے یا نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرع متین اس مسلئہ کے بارے میں کہ ،
وکالت کی پڑھائی کرنا کیسا جائز ہے یا نہیں ؟
بہُت سے لوگ کہتے ہیں وکالت کا پڑھائی نہیں کرنی چاہئے ، وکالت کا کمائی حرام ہے کیوں کہ وکالت میں کبھی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے ہیں۔  
اور اعلیٰ حضرت نے بھی وکالت کو حرام لکھا ہے؟ 
صحیح کیا ہے پڑھائی کرنی چاہیے یا نہیں صحیح مسئلہ بتا دیں مفتی صاحب قبلہ
اور شکریہ کا موقع دیں ۔جزاک اللہ خیرا
سائل:- محمد آفتاب عطاری ، ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 
١/رزق حلال اور قوم کی خدمت کرنے کے لئے وکالت کی پڑھائی کرنا جائز ہے۔
سچ و جھوٹ حرام حلال کا معاملہ تو اپنے اوپر ہے
 یاد رہے کہ وکالت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں البتہ اس کی پریکٹس جس میں ہر کیس میں جھوٹ بولنا اور بولوانا یہ شرعاً جھوٹ بول کر کمائی حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ رہے گا 
مقصد نیک ہو دورانِ تعلیم خلاف شرع امر کا ارتکاب لازم نہ آتا ہو اور غلط عقیدے میں ابتلاء کا اندیشہ نہ ہو تو وکالت کی پڑھائی میں مضائقہ نہیں جائز ہے اور پڑھائی کے بعد اس کا پیشہ اور اس کی آمدنی کی بابت حکم یہ ہے کہ جائز مقدمات کی پیروی اور اس کی اجرت جائز ہے اور ناجائز اور ناحق مقدمات کی پیروی اور اس کی اجرت ناجائز ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا کوئی قول ممانعت کے باب میں میرے علم میں نہیں ہے 
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30_07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area