(سوال نمبر 6031)
کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے جبکہ مرد بھی گھر میں موجود ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ عورت جانور ذبح کر سکتی ہے جبکہ مرد بھی گھر میں موجود ہو۔۔۔؟
سائل:- خادم حسین کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اگرچہ مرد موجود ہو اگر مسلمان عورت صحیح طور پر ذبح کرنا جانتی ہو تو ذبح کرسکتی ہے اور اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہوگا اور اس کا کھانا بھی جائز ہوگا.
احکامِ شریعت میں ہے
عورت کا ذبیحہ جائز ہے جبکہ ذبح صحیح طور پر کرسکے. (احکامِ شریعت ص 144 ضیاء القرآن پبلیکیشنز )
بخاری شریف میں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے ہاتھ کی ذبح کی ہوئی بکری کا گوشت کھانے کی اجازت دی (فتاویٰ مصطفویہ ج سوم ص 1153 اور فتاوی رضویہ ج 8 ص 1328 اور ص 332)
سمجھدار بچے کا ذبح کیا ہوا جانور بھی حلال ہے اور مسلمان اگر بدکار اور حرام کار ہو تو اس کا ذبیحہ بھی جائز ہے نماز روزے کا پابند نہ ہو اس کے ہاتھ کا بھی ذبح کیا ہو جانور حلال ہے ہاں نماز روزہ چھوڑنا اور حرام کام کرنا اسلام میں بہت برا کام ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے
ذبح کے لئے دین سماوی شرط ہے اعمال شرط نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ ج 8 ص 333 غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح ص 163)
فتاوی ھندیہ میں ہے
المرءہ المسلمتہ والکتابیتہ فی الذبح کالرجل وتئو کل ذبیحتہ الاخرس مسلماکان او کتابیا (کذا فی فتاوی قاضی خان )
مسلمان اور کتابیہ عورت ذبح کرنے میں مرد کی طرح ہے اور گونگا کا ذبیحہ کھایا جائے گا خواہ مسلمان ہو یا کتابی۔ (فتاویٰ قاضی خان ج5ص 286 )(بہار شریعت ح 15 ج 3 ص 316 )
فتاوی شامی میں ہے
شرط کون الذابح مسلما او کتابیا و لو امراة
ذبح کرنے والے کےلئے مسلمان اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والا کافی ہے۔ اگر چہ عورت ہی ہو (در مختار کتاب الذبائح ج دوم ص 218 ط مجتبائی)
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔
30/07/2023
کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے جبکہ مرد بھی گھر میں موجود ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ عورت جانور ذبح کر سکتی ہے جبکہ مرد بھی گھر میں موجود ہو۔۔۔؟
سائل:- خادم حسین کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اگرچہ مرد موجود ہو اگر مسلمان عورت صحیح طور پر ذبح کرنا جانتی ہو تو ذبح کرسکتی ہے اور اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہوگا اور اس کا کھانا بھی جائز ہوگا.
احکامِ شریعت میں ہے
عورت کا ذبیحہ جائز ہے جبکہ ذبح صحیح طور پر کرسکے. (احکامِ شریعت ص 144 ضیاء القرآن پبلیکیشنز )
بخاری شریف میں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے ہاتھ کی ذبح کی ہوئی بکری کا گوشت کھانے کی اجازت دی (فتاویٰ مصطفویہ ج سوم ص 1153 اور فتاوی رضویہ ج 8 ص 1328 اور ص 332)
سمجھدار بچے کا ذبح کیا ہوا جانور بھی حلال ہے اور مسلمان اگر بدکار اور حرام کار ہو تو اس کا ذبیحہ بھی جائز ہے نماز روزے کا پابند نہ ہو اس کے ہاتھ کا بھی ذبح کیا ہو جانور حلال ہے ہاں نماز روزہ چھوڑنا اور حرام کام کرنا اسلام میں بہت برا کام ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے
ذبح کے لئے دین سماوی شرط ہے اعمال شرط نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ ج 8 ص 333 غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح ص 163)
فتاوی ھندیہ میں ہے
المرءہ المسلمتہ والکتابیتہ فی الذبح کالرجل وتئو کل ذبیحتہ الاخرس مسلماکان او کتابیا (کذا فی فتاوی قاضی خان )
مسلمان اور کتابیہ عورت ذبح کرنے میں مرد کی طرح ہے اور گونگا کا ذبیحہ کھایا جائے گا خواہ مسلمان ہو یا کتابی۔ (فتاویٰ قاضی خان ج5ص 286 )(بہار شریعت ح 15 ج 3 ص 316 )
فتاوی شامی میں ہے
شرط کون الذابح مسلما او کتابیا و لو امراة
ذبح کرنے والے کےلئے مسلمان اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والا کافی ہے۔ اگر چہ عورت ہی ہو (در مختار کتاب الذبائح ج دوم ص 218 ط مجتبائی)
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔
30/07/2023