(سوال نمبر 4035)
ادھار لے کر قربانی کرکے پیسہ واپس نہ دینا قربانی ہوگی یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اُدھار پیسہ روپیہ لیکر قربانی کرا سکتے ہیں کہ نہیں ایک شخص ہے اس نے اپنے بھائی سے پیسے لیکر قربانی کرائی اور اب وہ پیسہ نہیں دے رہا ہے ایسے میں کیا اُس کی قربانی ہو گئی یا نہیں ؟حدیث کی روشنی میں جواب ضرور عنائت فرمائیں
سائل:- محمد کاشف ساج جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اگر کوئی مالک نصاب ہو اور فی الوقت جانور خریدنے کی رقم موجود نہ ہو تو قرض ادھار لے کر قربانی کریں گے پر ادھار واپس کرنا لازم و ضروری ہے ۔
مذکورہ صورت میں اگر پیلے سے رقم واپس نہ کرنے کی نیت تھی پھر یہ رقم دھوکا دھری سے حاصل کرنا ہوا جو کہ حرام ہے اور حرام رقم سے قربانی نہیں ہوگی اور اگر پیلے سے رقم دینے کی نیت تھی پھر قربانی ہوگئی قرض لے کر نہ دینے کا وبال اس کے سر ہوگا یہ حقوق العباد ہے کسی صورت معاف نہیں جس طرح دھوکہ فراڈ سے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اسی طرح مقروض کا وسعت کے باجود قرض واپس نہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ مجتھد في المسائل اعلیٰ حضرت رضی الله عنہ فرماتے ہیں
قربانی واجب ہونے کے لئے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ ۵۶ روپیہ کے مال کا مالک ہو،(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا مالک) چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت،کاشتکار کے بل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ان کا شمار نہ ہو، ہزار روپیہ ماہوار کی آمدنی والا آدمی قربانی کے دن ۵۶ روپیہ کا مالک نہ ہو، یہ صورت خلاف واقعہ ہے۔ اور اگر ایسا فرض کیا جائے کہ اس وقت وہ فقیر ہے تو ضرور اس پر قربانی نہ ہوگی، اور جس پر قربانی ہے اور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں وہ چاہے قرض لے کر کرے یا اپنا کچھ مال بیچے، (فتاویٰ رضویہ ج ٢٠ ص ٧١ المكتبة المدينة )
آقا علیہ السلام نے ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرما دیتے جس پر قرض ہوتا تھا تاآنکہ کوئی شخص اُس کا قرض ادا کرنے یا قرض خواہ اُسے قرض معاف کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ: أَبُو قَتَادَةَ عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔(بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب من تكفل عن ميت دينا فليس له أن يرجع، 2: 803، رقم: 2173، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ المُتَوَفَّى، عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا؟، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الفُتُوحَ، قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ المُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا، فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ پوچھتے کیا اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ لوگ ہاں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا دیتے ورنہ مسلمانوں سے فرماتے کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مال دیا تو فرمایا کہ میں مسلمانوں کا اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہوں۔ پھر جو مسلمانوں میں سے فوت ہو جائے اور قرض چھوڑے تو یہ مجھ پر ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اُس کے وارثوں کے لیے ہے۔(بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب الدين، 2: 805، رقم: 2176)
اس موضوع پر اور بھی متعدد روایات موجود ہیں۔ اس لیے لوگوں کا ناحق مال کھانا اور قرض واپس نہ کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ سوال میں مذکور شخص قرض کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض واپس نہ کر کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
13/07/2023
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اُدھار پیسہ روپیہ لیکر قربانی کرا سکتے ہیں کہ نہیں ایک شخص ہے اس نے اپنے بھائی سے پیسے لیکر قربانی کرائی اور اب وہ پیسہ نہیں دے رہا ہے ایسے میں کیا اُس کی قربانی ہو گئی یا نہیں ؟حدیث کی روشنی میں جواب ضرور عنائت فرمائیں
سائل:- محمد کاشف ساج جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اگر کوئی مالک نصاب ہو اور فی الوقت جانور خریدنے کی رقم موجود نہ ہو تو قرض ادھار لے کر قربانی کریں گے پر ادھار واپس کرنا لازم و ضروری ہے ۔
مذکورہ صورت میں اگر پیلے سے رقم واپس نہ کرنے کی نیت تھی پھر یہ رقم دھوکا دھری سے حاصل کرنا ہوا جو کہ حرام ہے اور حرام رقم سے قربانی نہیں ہوگی اور اگر پیلے سے رقم دینے کی نیت تھی پھر قربانی ہوگئی قرض لے کر نہ دینے کا وبال اس کے سر ہوگا یہ حقوق العباد ہے کسی صورت معاف نہیں جس طرح دھوکہ فراڈ سے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اسی طرح مقروض کا وسعت کے باجود قرض واپس نہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ مجتھد في المسائل اعلیٰ حضرت رضی الله عنہ فرماتے ہیں
قربانی واجب ہونے کے لئے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ ۵۶ روپیہ کے مال کا مالک ہو،(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا مالک) چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت،کاشتکار کے بل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ان کا شمار نہ ہو، ہزار روپیہ ماہوار کی آمدنی والا آدمی قربانی کے دن ۵۶ روپیہ کا مالک نہ ہو، یہ صورت خلاف واقعہ ہے۔ اور اگر ایسا فرض کیا جائے کہ اس وقت وہ فقیر ہے تو ضرور اس پر قربانی نہ ہوگی، اور جس پر قربانی ہے اور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں وہ چاہے قرض لے کر کرے یا اپنا کچھ مال بیچے، (فتاویٰ رضویہ ج ٢٠ ص ٧١ المكتبة المدينة )
آقا علیہ السلام نے ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرما دیتے جس پر قرض ہوتا تھا تاآنکہ کوئی شخص اُس کا قرض ادا کرنے یا قرض خواہ اُسے قرض معاف کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ: أَبُو قَتَادَةَ عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔(بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب من تكفل عن ميت دينا فليس له أن يرجع، 2: 803، رقم: 2173، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ المُتَوَفَّى، عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا؟، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الفُتُوحَ، قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ المُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا، فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ پوچھتے کیا اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ لوگ ہاں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا دیتے ورنہ مسلمانوں سے فرماتے کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مال دیا تو فرمایا کہ میں مسلمانوں کا اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہوں۔ پھر جو مسلمانوں میں سے فوت ہو جائے اور قرض چھوڑے تو یہ مجھ پر ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اُس کے وارثوں کے لیے ہے۔(بخاری، الصحیح، كتاب الكفالة، باب الدين، 2: 805، رقم: 2176)
اس موضوع پر اور بھی متعدد روایات موجود ہیں۔ اس لیے لوگوں کا ناحق مال کھانا اور قرض واپس نہ کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ سوال میں مذکور شخص قرض کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض واپس نہ کر کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
13/07/2023