Type Here to Get Search Results !

چلتی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4036)
چلتی ٹرین میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہم جب سفر میں ہوتے ہیں۔ ٹرین یا کسی اور سواری پر۔ تو ہماری نمازیں رہ جاتی ہیں۔ سواری والے روکتے نہیں۔ اگر ٹرین رکتی ہے تو بہت تھوڑا وقت کے لیے۔ دو منٹ کے لیے۔ اتنی دیر میں وضو نہیں ہوتا نماز کیا پڑھیں گے۔ آخری اسٹیشن پر جب ٹرین رکتی ہے زیادہ وقت آدھے گھنٹے کے لیے تو نماز کا وقت جا چکا ہوتا ہے۔ مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں شرعی رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع دیں
سائل :-توصیف احمد البرہانی خانیوال پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
بہتر ہے فجر سے ظہر اور عشا سے فجر کے درمیان سفر کریں کہ اس کے بیچ کوئی نماز نہیں ۔مذکورہ صورت میں چلتی ٹرین میں جس قدر ممکن ہو نماز پڑھ لیں بعد میں اعادہ کریں اور اگر کچھ بھی ممکن نہ ہو پھر قضا کریں ۔یعنی چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز ہوسکتی ہے، لیکن فرض، واجب اور سنت فجر نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھی جائیں، ہاں اگر نماز کا وقت ختم ہونے والا ہو، تو جس طرح بھی ممکن ہو، ان نمازوں کو پڑھ لیا جائے، اور پھر موقع ملنے پر لوٹا لیا جائے چلتی۔ ٹرین میں نماز کے بابت فیصلہ جات بریلی شریف میں ہے کہ ٹرینوں کا روکنا چلانا اختیار عبد میں ہے اسلئے اعذار معتبرہ فی التیمم میں سے کوئی عذر متحقق نہیں کہ چلتی ٹرین پر فرض و واجب ادا کرنے سے اسقاط فرض و واجب ہوسکے. لہذا وقت جارہا ہو تو جس طرح پڑھنا ممکن ہو پڑھ لے جب موقع ملے دوبارہ پڑھیں اعلیٰ حضرت کے زمانے سے لیکر آج تک ٹرینوں کے چلنے رکنے وغیرہ کے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوا ہے فیصلہ جات شرعی کونسل بریلی شریف اور مجلس شرعی کے فیصلے میں اب بعض علماء کرام نے جواز کا فتویٰ دیا ہے مثلا محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی صاحب قبلہ ۔
پر اب بھی یہ مسئلہ اختلافی ہے اور ایسے میں قولِ امام میں احوط جانبِ منع ہی ہے یعنی اب بھی چلتی ٹرین پر نماز جائز نہ ہونے کا فتوٰی ہی حنفی کے حق میں احوط ہےب
پر اگر کوئی غیر ممکن حالت میں چلتی ٹرین میں نماز پڑھے گا تو ہوجائے گی ۔کہ تغیر زمان و مکان سے فروعی مسائل بدلتے رہتے ہیں ۔
فتاوی رضویہ میں ہے 
ٹھہری ہوئی ریل میں سب نمازیں جائز ہیں اور چلتی ہوئی میں سنّتِ صبح کے سوا سب سنّت و نفل جائز ہیں مگر فرض و وتر یا صبح کی سنتیں نہیں ہوسکتیں اہتمام کرے کہ ٹھہری میں پڑھے اور دیکھے کہ وقت جاتا ہے پڑھ لے اور جب ٹھہرے پھر پھیرے۔(فتاویٰ رضویہ،کتاب الصلاۃ،۱۱۳/۵،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:فرض اور واجب جیسے وتر و نذر اور ملحق بہ یعنی سنّتِ فجر چلتی ریل میں نہیں ہوسکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے، پڑھ لے پھر بعدِ استقرار اعادہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ،۱۳۶/۶۔۱۳۷،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
بہار میں ہے 
چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض و واجب و سنّتِ فجر نہیں ہوسکتی، اور اس کو جہاز اور کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں ہو کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھے اوراگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کرے کہ جہاں مِن جہۃ العباد (یعنی بندوں کی طرف سے) کوئی شرط یا رکن مفقود ہو(یعنی نہ پایا گیا ہو) اُس کا یہی حکم ہے (بہارِ شریعت،سنن ونوافل کا بیان ح چہارم،۶۷۳/۱ ط مکتبۃ المدینہ،کراچی)
فتاوی شارح بخاری میں ہے 
ریل گاڑی، بس اگر پلیٹ فارم پر یا کہیں کھڑی ہے تو اس میں نماز صحیح ہے، اور اگر چل رہی ہے تو اس میں نماز درست نہیں۔ اس لیے کہ استقرار علی الْارض (یعنی زمین پر ٹھہراؤ) نہیں پایا گیا۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ نماز قضا ہوجائے گی تو چلتی ٹرین میں نماز پڑھ لے، پھر اعادہ کرے۔ اس لیے کہ ٹرین سے اترنا بہ آسانی ممکن ہے اور اترے گا تو نماز پڑھنے کے لائق زمین ملے گی، مگر چلتی ٹرین سے اترنا ناممکن ہے، مگر یہ دشواری سماوی نہیں، خود بندوں کی طرف سے ہے، اس لیے چلتی ٹرین میں جو نمازیں پڑھیں، اُن کا اعادہ واجب ہے۔(نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،۹۷/۲،مطبوعہ:فرید بُک اسٹال،لاہور)
فتاوی فیض الرسول میں ہے 
چلتی ہوئی ٹرین میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے مگر فرض، واجب اور سنّتِ فجر پڑھنا جائز نہیں۔ اسلئے کہ نماز کے لئے شروع سے آخر تک اتحادِ مکان اور جہتِ قبلہ شرط ہے، اور چلتی ہوئی ٹرین میں شروع نماز سے آخر تک قبلہ رخ رہنا اگرچہ بعض صورتوں میں ممکن ہے، لیکن اختتامِ نماز تک اتحادِ مکان یعنی ایک جگہ رہنا کسی طرح ممکن نہیں، اس لئے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر نماز کے اوقات میں نماز پڑھنے کی مقدار ٹرین کا ٹھہرنا ممکن نہ ہو، تو چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھ لے، پھر موقع ملنے پر اعادہ کرے۔(فتاوی فیض الرسول،نماز کی شرطوں کا بیان،۲۳۶/۱،مطبوعہ:شبیر برادرز،لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔
13/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area