(سوال نمبر 5012)
تصوف کیسے کہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تصوف کیا ہے ؟ اسکے بارے میں تفصیل بتا دیں۔۔۔۔۔
سائلہ:- عائشہ اقبال شہر کراچی فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
طریقت در اصل شریعت کا ہی ایک حصہ ہے جسے تصوف کہتے ہیں حدیث جبریل میں جسے لفظ احسان سے زکر کیا گیا ہے یعنی طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔پھر جس شخص میں یہ کمال ہو وہی شیخ اور پیر ہوتے ہیں
ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ ولایت وَہبی شے ہے نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ سے آدمی خود حاصل کرلے، البتہ غالباً اعمالِ حسنہ اِس عطیۂ الٰہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداء مل جاتی ہے۔ولایت بے علم کو نہیں ملتی خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر ﷲ نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں تمام اولیائے اوّلین و آخرین سے اولیائے محمدیّین یعنی اِس اُمّت کے اولیاء افضل ہیں اور تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں
خلفائےاَربعہ
رَضِیَ ﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے، پھر فاروقِ اعظم، پھر ذو النورَین، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رَضِیَ ﷲُ عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ ہاں مرتبۂ تکمیل پر حضورِ اقدس صَلَّی ﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انھیں کے دست نگر تھے، اور ہیں اور رہیں گے (بہار ح ١ص ٢٤٤مكتبة المدينة)
شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیبت و شہادت اور عدم و تکلف کا ہے
(مکتوبات امام ربانی، 2 )
اسے آپ یوں سمجھے
(١) شریعت ۔
(٢) طریقت ۔
( ٣) حقیقت ۔
( ٥) معرفت
شریعت قرآن و سنت کے ظاہری احکام کو ’شریعت کہا جاتا ہے ۔ اور طریقت ان کے باطن کا نام ہے۔ مثال کے طور پر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کرلیا جائے لیکن طریقت کی طہارت یہ ہے کہ دل کو تمام برائیوں سے پاک کیا جائے ۔
شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے جو اثرات ذہن و قلب پر مکمل طور پر چھا جائیں اور یقین کی دولت حاصل ہو جائے تو اِسے حقیقت کہا جاتا ہے
معرفت سے مراد ہے:اللہ تعالیٰ کی پہچان۔اس کا دوسرا نام عرفان ہے۔جب صوفی پر حقائق کھلتے ہیں تو وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہی عرفان ہے اور یہی معرفت ہے ۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب سالک سے کوئی غلَطی ہو جاتی ہے تو معرفت سے حقیقت‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔جب حقیقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے وہ طریقت کی منزل پر آجاتا ہے۔ جب طریقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے تو شریعت کی منزل پر آجاتا ہے۔اس لئے شریعت کی پابندی ضروری ہے (فوائد الفواد)
فتاوی رضویہ میں ہے
حاشا نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں، علامہ مناوی شرح جامع صغیر پھر عارف باللہ سیدی عبدالفنی نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا (فتاوی رضویہ شریف، ج 21 ، ص 530)
وایضا
شریعت طریقت حقیقت معرفت میں باہم اصلا کوئی اختلاف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ بد دین شریعت، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں اور طریقت ، حضور کے افعال اور حقیقت، حضور کے احوال ، اور معرفت ، حضور کے علوم بے مثال(فتاوی رضویہ شریف ، ج 21 ص 460)
تصوف کی بنیادی خصوصیات
حضرت سید علی بن عثمان جلابی المعروف حضور داتا گنج بخش ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب کے صفحہ ۳۹ پر سید الطائفہ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں
١/ سخاوت ٢/رضا ٣/ صبر .٤/ اشارہ.. ٥/ غربت.. ٦/ گدڑی (لباس)... ٧/ سیاحت اور ..٨/ فقر۔
یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہیں ۔ چنانچہ،
١/ سخاوت حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے راہِ خدا میں اپنے جگر گوشہ کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔
٢/ رضا حضرت سیِّدُنا اسماعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے ربّ کی رضا کے لیے اپنی جانِ عزیز کو بھی بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیا۔
٣/ صبر حضرت سیِّدُنا ایوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپنے بے انتہا مصائب پر صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے ربّ کی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔
٤/ اشارہ حضرت سیِّدُنا زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ ربّ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا:
اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًاؕ- (پ۳، اٰل عمران: ۴۱)
ترجمۂ کنز الایمان: تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا(پ۱۶، مریم:۳)
تصوف کیسے کہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تصوف کیا ہے ؟ اسکے بارے میں تفصیل بتا دیں۔۔۔۔۔
سائلہ:- عائشہ اقبال شہر کراچی فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
طریقت در اصل شریعت کا ہی ایک حصہ ہے جسے تصوف کہتے ہیں حدیث جبریل میں جسے لفظ احسان سے زکر کیا گیا ہے یعنی طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔پھر جس شخص میں یہ کمال ہو وہی شیخ اور پیر ہوتے ہیں
ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ ولایت وَہبی شے ہے نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ سے آدمی خود حاصل کرلے، البتہ غالباً اعمالِ حسنہ اِس عطیۂ الٰہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداء مل جاتی ہے۔ولایت بے علم کو نہیں ملتی خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر ﷲ نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں تمام اولیائے اوّلین و آخرین سے اولیائے محمدیّین یعنی اِس اُمّت کے اولیاء افضل ہیں اور تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں
خلفائےاَربعہ
رَضِیَ ﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے، پھر فاروقِ اعظم، پھر ذو النورَین، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رَضِیَ ﷲُ عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ ہاں مرتبۂ تکمیل پر حضورِ اقدس صَلَّی ﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انھیں کے دست نگر تھے، اور ہیں اور رہیں گے (بہار ح ١ص ٢٤٤مكتبة المدينة)
شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیبت و شہادت اور عدم و تکلف کا ہے
(مکتوبات امام ربانی، 2 )
اسے آپ یوں سمجھے
(١) شریعت ۔
(٢) طریقت ۔
( ٣) حقیقت ۔
( ٥) معرفت
شریعت قرآن و سنت کے ظاہری احکام کو ’شریعت کہا جاتا ہے ۔ اور طریقت ان کے باطن کا نام ہے۔ مثال کے طور پر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کرلیا جائے لیکن طریقت کی طہارت یہ ہے کہ دل کو تمام برائیوں سے پاک کیا جائے ۔
شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے جو اثرات ذہن و قلب پر مکمل طور پر چھا جائیں اور یقین کی دولت حاصل ہو جائے تو اِسے حقیقت کہا جاتا ہے
معرفت سے مراد ہے:اللہ تعالیٰ کی پہچان۔اس کا دوسرا نام عرفان ہے۔جب صوفی پر حقائق کھلتے ہیں تو وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہی عرفان ہے اور یہی معرفت ہے ۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب سالک سے کوئی غلَطی ہو جاتی ہے تو معرفت سے حقیقت‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔جب حقیقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے وہ طریقت کی منزل پر آجاتا ہے۔ جب طریقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے تو شریعت کی منزل پر آجاتا ہے۔اس لئے شریعت کی پابندی ضروری ہے (فوائد الفواد)
فتاوی رضویہ میں ہے
حاشا نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں، علامہ مناوی شرح جامع صغیر پھر عارف باللہ سیدی عبدالفنی نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا (فتاوی رضویہ شریف، ج 21 ، ص 530)
وایضا
شریعت طریقت حقیقت معرفت میں باہم اصلا کوئی اختلاف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ بد دین شریعت، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں اور طریقت ، حضور کے افعال اور حقیقت، حضور کے احوال ، اور معرفت ، حضور کے علوم بے مثال(فتاوی رضویہ شریف ، ج 21 ص 460)
تصوف کی بنیادی خصوصیات
حضرت سید علی بن عثمان جلابی المعروف حضور داتا گنج بخش ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب کے صفحہ ۳۹ پر سید الطائفہ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں
١/ سخاوت ٢/رضا ٣/ صبر .٤/ اشارہ.. ٥/ غربت.. ٦/ گدڑی (لباس)... ٧/ سیاحت اور ..٨/ فقر۔
یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہیں ۔ چنانچہ،
١/ سخاوت حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے راہِ خدا میں اپنے جگر گوشہ کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔
٢/ رضا حضرت سیِّدُنا اسماعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے ربّ کی رضا کے لیے اپنی جانِ عزیز کو بھی بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیا۔
٣/ صبر حضرت سیِّدُنا ایوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپنے بے انتہا مصائب پر صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے ربّ کی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔
٤/ اشارہ حضرت سیِّدُنا زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ ربّ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا:
اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًاؕ- (پ۳، اٰل عمران: ۴۱)
ترجمۂ کنز الایمان: تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا(پ۱۶، مریم:۳)
کنز الایمان جب اسنے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔
٥/ غربت حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے کہ انہوں نے اپنے وطن میں بھی مسافروں کی طرح زندگی بسر کی اور خاندان میں رہتے ہوئے بھی اپنوں سے بیگانہ رہے۔
٦/ گدڑی (صوف کا لباس) حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے سب سے پہلے پشمینی لباس زیبِ تن فرمایا۔
٧/ سیاحت حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے تنہا زندگی گزاری اور ایک پیالہ و کنگھی کے سوا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ بلکہ ایک مرتبہ کسی کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی توڑ دیا اور جب کسی کو دیکھا کہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر رہا ہے تو کنگھی بھی توڑ دی۔
٨/ فقر محسنِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت ہے جنہیں رُوئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرمائی گئیں مگر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خدا! میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں
والله و رسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔20/07/2023
٦/ گدڑی (صوف کا لباس) حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے سب سے پہلے پشمینی لباس زیبِ تن فرمایا۔
٧/ سیاحت حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے تنہا زندگی گزاری اور ایک پیالہ و کنگھی کے سوا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ بلکہ ایک مرتبہ کسی کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی توڑ دیا اور جب کسی کو دیکھا کہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر رہا ہے تو کنگھی بھی توڑ دی۔
٨/ فقر محسنِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت ہے جنہیں رُوئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرمائی گئیں مگر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خدا! میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں
والله و رسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔20/07/2023