(سوال نمبر 5013)
معلمات کہتی ہیں اگر حالت حیض میں طالبات سبق نہیں سنائے گی تو حرج ہے اور پڑھائی کمزور ہوگی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرع عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ
حفظ کی طالبات کا دوران عذر شرعی یعنی حالت حیض میں قرآن پاک کا سبق، سنانا کیسا ہے ؟ شرعی حکم کیا ہے؟اور جن معلمات کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کریں تو سبق وغیرہ کا حرج ہوتا اور پڑھائی کمزور ہوتی ہے انکے بارے میں بھی شرعی حکم اور اسکا کوئی حل بتا کر راہنمائی فرما دیجیئے۔جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔
سائلہ:- لائبہ بنت اصغر فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
حالت حیض میں قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے وہ سبق نہیں سنا سکتی ہیں اور جو کپڑا جسم کے تابع ہو اس کپڑے کے ذریعے قران مجید کو چھو بھی نہیں سکتی ہے جیسے دستانے پہن کر حالت حیض میں قرآن شریف کو چھونا جائز نہیں ہے چونکہ دستانے جسم کے تابع ہے۔ جیسے کُرتے کے دامن یا دوپٹے کے آنچل سے یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے، اوڑھے ہوئے ہے قرآنِ مجید چُھونا حرام ہے البتہ جو کپڑا جسم کے تابع نہیں ہے اس کپڑا سے قرآن شریف چھو سکتے ہیں ۔پر حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں۔
مذکورہ صورت میں جب قرآن شریف حفط کرنے والی لڑکی کو بھولنے کا خوف ہو تو زبان سے آواز نکالے بغیر دل میں پڑھنے کی گنجائش ہے قرآن پاک یا اس کا ترجمہ نہیں پڑھ سکتیں۔ ہاں بغیر پڑھے صرف دل ہی دل میں دہرانا،نظر پھیرتے جانا، اور یوں یاد کرنا، یہ منع نہیں ہے ۔صرف اس بات کاخیال رہے کہ قرآن پاک یاترجمہ کوبلاحائل چھونے والی صورت نہ بنے۔
معلمات کو مسئلہ شرعی بتائیں وہ حکم شرع کے خلاف نہ کریں ورنہ گنہگار ہوگی ۔
طالبات کو پڑھائے یا خود طالبہ پڑھے تو ایک ایک کلمہ پڑھ کر سانس توڑ دیا کرے۔ دوسری صورت فقہاءِ کرام نے یہ لکھی ہے کہ کسی پاک کپڑے سے قرآنِ مجید کو پکڑے اور اس میں دیکھ کر، زبانی تلفظ کے بغیر دل دل میں قرآنی آیات دہراتی رہے۔
مذکورہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرنے سے تعلیمی حرج پر قابو پایا جاسکتاہے
کما فی الفتاوی الہندیہ (ومنها) حرمة مس المصحف، لايجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز، لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية، وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.۔۔۔۔واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء، والمنع أصح. كذا في الزاهدي، ولايجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها، ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن، ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين۔
(کتاب الطھارة،اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺴﺎﺩﺱ ﻓﻲ اﻟﺪﻣﺎء اﻟﻤﺨﺘﺼﺔ ﺑﺎﻟﻨﺴﺎء، الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضة، ج: 1، ص: 39، ط: دارالفکر، بیروت)
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اس حالت میں کُرتے کے دامن یا دوپٹے کے آنچل سے یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے، اوڑھے ہوئے ہے قرآنِ مجید چُھونا حرام ہے غرض اس حالت میں قرآنِ مجید و کتب ِدینیہ پڑھنے اور چھونے کے متعلق وہی سب اَحْکام ہیں جو اس شخص کے بارے میں ہیں جس پر نہانا فرض ہے جن کا بیان غُسل کے باب میں گزرا۔
( بہار ح ۲ ص ۳۷۸ مکتبہ المدینہ کراچی)
حدیث پاک میں ہے آقا علیہ السلام نے فرما یا
لَا تَقْرَاَ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ.
حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں۔
(ترمذي، السنن، 1: 236، رقم: 131، دار احیاء التراث العربي، بیروت)
کما فی الدر المختار حيض يمنع صلاة و صوما و تقضيه و دخول مسجد و الطواف و قربان ما تحت اِزار و قرأة قرآن و مسه الا بغلافه. و کذا ولا بأس بقرأة أدعية و مسها و حملها و ذکر الله تعالٰی، و تسبيح و أکل و شرب بعد مضمضة و غسل يد. ولا يکره مس قرآن بکم.
دورانِ حیض نماز، روزہ، روزہ کی قضاء، مسجد میں داخل ہونا، طواف کعبہ، جنسی قربت، تلاوتِ قرآن اور غلاف کے بغیر قرآنِ مجید کو چھونا ممنوع ہے۔ البتہ کلی کرنے اور ہاتھ دھونے کے بعد دعائیں پڑھنے، انہیں چھونے، ان کو اٹھانے، اللہ کا ذکر کرنے، تسبیح پڑھنے اور کھانے پینے کی ممانعت نہیں ہے۔ آستین کے ساتھ قرآن چھونا بھی منع نہیں ہے۔( الدرالمختار، 1: 290تا 294، دار الفکر، بيروت)
علامہ شامی آگے فرماتے ہیں
لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه کلمة کلمة کما قدمناه، کالقرآن التورة و الانجيل و الزبور کما قدمه المصنف فاو قرأت الفاتحة علی وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التی فيها الدعاء و لم ترد القرأة.
حیض (و نفاس) والی استانی کے لیے ایک ایک لفظ کر کے تعلیم دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، زبور (کے پڑھنے) سے (بھی منع کیا جائے گا) جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ سو اگر کسی نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھی یا قرآن کی دیگر آیاتِ دعائیہ (پڑھیں) اور ارادہ قرات کا نہ تھا تو اس میں حرج نہیں۔( ردالحتار، 1: 293، دار الفکر للطباعة والنشر، بيروت)
معلوم ہوا کہ خواتین حیض کے ایام میں تلاوت کی نیت سے قرآنِ مجید نہیں پڑھ سکتیں۔ اگر کوئی معلمہ ہے تو ہجے کروا سکتی ہے۔ مثلاً عَلَّمَ الْقُرْاٰن دو الفاظ ہیں‘ عَلَّمَ کو الگ ادا کرے گی اور الْقُرْاٰن کو الگ۔ ملاکر نہیں پڑھ سکتی۔
حیض والی عورت ایسے کپڑے یا کسی اور چیز سے مصحفِ قرآن کو چھو سکتی ہے جو اس سے متصل (جُڑی ہوئی) نہ ہو‘ مثلاً غلاف، تھیلا، کوئی کپڑا یا مصحف کی اکھڑی ہوئی جلد وغیرہ۔ اسی طرح حیض والی عورت احادیث میں مذکور مسنون دعائیں، تلاوت کی نیت کیے بغیر دعائیہ قرآنی آیات، کلماتِ طیبہ، تسبیحات، استغفار وظائف اور درود و سلام بھی بلاکراہت پڑھ سکتی ہے۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔20/07/2023
معلمات کہتی ہیں اگر حالت حیض میں طالبات سبق نہیں سنائے گی تو حرج ہے اور پڑھائی کمزور ہوگی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرع عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ
حفظ کی طالبات کا دوران عذر شرعی یعنی حالت حیض میں قرآن پاک کا سبق، سنانا کیسا ہے ؟ شرعی حکم کیا ہے؟اور جن معلمات کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کریں تو سبق وغیرہ کا حرج ہوتا اور پڑھائی کمزور ہوتی ہے انکے بارے میں بھی شرعی حکم اور اسکا کوئی حل بتا کر راہنمائی فرما دیجیئے۔جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔
سائلہ:- لائبہ بنت اصغر فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
حالت حیض میں قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے وہ سبق نہیں سنا سکتی ہیں اور جو کپڑا جسم کے تابع ہو اس کپڑے کے ذریعے قران مجید کو چھو بھی نہیں سکتی ہے جیسے دستانے پہن کر حالت حیض میں قرآن شریف کو چھونا جائز نہیں ہے چونکہ دستانے جسم کے تابع ہے۔ جیسے کُرتے کے دامن یا دوپٹے کے آنچل سے یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے، اوڑھے ہوئے ہے قرآنِ مجید چُھونا حرام ہے البتہ جو کپڑا جسم کے تابع نہیں ہے اس کپڑا سے قرآن شریف چھو سکتے ہیں ۔پر حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں۔
مذکورہ صورت میں جب قرآن شریف حفط کرنے والی لڑکی کو بھولنے کا خوف ہو تو زبان سے آواز نکالے بغیر دل میں پڑھنے کی گنجائش ہے قرآن پاک یا اس کا ترجمہ نہیں پڑھ سکتیں۔ ہاں بغیر پڑھے صرف دل ہی دل میں دہرانا،نظر پھیرتے جانا، اور یوں یاد کرنا، یہ منع نہیں ہے ۔صرف اس بات کاخیال رہے کہ قرآن پاک یاترجمہ کوبلاحائل چھونے والی صورت نہ بنے۔
معلمات کو مسئلہ شرعی بتائیں وہ حکم شرع کے خلاف نہ کریں ورنہ گنہگار ہوگی ۔
طالبات کو پڑھائے یا خود طالبہ پڑھے تو ایک ایک کلمہ پڑھ کر سانس توڑ دیا کرے۔ دوسری صورت فقہاءِ کرام نے یہ لکھی ہے کہ کسی پاک کپڑے سے قرآنِ مجید کو پکڑے اور اس میں دیکھ کر، زبانی تلفظ کے بغیر دل دل میں قرآنی آیات دہراتی رہے۔
مذکورہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرنے سے تعلیمی حرج پر قابو پایا جاسکتاہے
کما فی الفتاوی الہندیہ (ومنها) حرمة مس المصحف، لايجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز، لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية، وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.۔۔۔۔واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء، والمنع أصح. كذا في الزاهدي، ولايجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها، ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن، ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين۔
(کتاب الطھارة،اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺴﺎﺩﺱ ﻓﻲ اﻟﺪﻣﺎء اﻟﻤﺨﺘﺼﺔ ﺑﺎﻟﻨﺴﺎء، الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضة، ج: 1، ص: 39، ط: دارالفکر، بیروت)
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اس حالت میں کُرتے کے دامن یا دوپٹے کے آنچل سے یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے، اوڑھے ہوئے ہے قرآنِ مجید چُھونا حرام ہے غرض اس حالت میں قرآنِ مجید و کتب ِدینیہ پڑھنے اور چھونے کے متعلق وہی سب اَحْکام ہیں جو اس شخص کے بارے میں ہیں جس پر نہانا فرض ہے جن کا بیان غُسل کے باب میں گزرا۔
( بہار ح ۲ ص ۳۷۸ مکتبہ المدینہ کراچی)
حدیث پاک میں ہے آقا علیہ السلام نے فرما یا
لَا تَقْرَاَ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ.
حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں۔
(ترمذي، السنن، 1: 236، رقم: 131، دار احیاء التراث العربي، بیروت)
کما فی الدر المختار حيض يمنع صلاة و صوما و تقضيه و دخول مسجد و الطواف و قربان ما تحت اِزار و قرأة قرآن و مسه الا بغلافه. و کذا ولا بأس بقرأة أدعية و مسها و حملها و ذکر الله تعالٰی، و تسبيح و أکل و شرب بعد مضمضة و غسل يد. ولا يکره مس قرآن بکم.
دورانِ حیض نماز، روزہ، روزہ کی قضاء، مسجد میں داخل ہونا، طواف کعبہ، جنسی قربت، تلاوتِ قرآن اور غلاف کے بغیر قرآنِ مجید کو چھونا ممنوع ہے۔ البتہ کلی کرنے اور ہاتھ دھونے کے بعد دعائیں پڑھنے، انہیں چھونے، ان کو اٹھانے، اللہ کا ذکر کرنے، تسبیح پڑھنے اور کھانے پینے کی ممانعت نہیں ہے۔ آستین کے ساتھ قرآن چھونا بھی منع نہیں ہے۔( الدرالمختار، 1: 290تا 294، دار الفکر، بيروت)
علامہ شامی آگے فرماتے ہیں
لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه کلمة کلمة کما قدمناه، کالقرآن التورة و الانجيل و الزبور کما قدمه المصنف فاو قرأت الفاتحة علی وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التی فيها الدعاء و لم ترد القرأة.
حیض (و نفاس) والی استانی کے لیے ایک ایک لفظ کر کے تعلیم دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، زبور (کے پڑھنے) سے (بھی منع کیا جائے گا) جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے۔ سو اگر کسی نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھی یا قرآن کی دیگر آیاتِ دعائیہ (پڑھیں) اور ارادہ قرات کا نہ تھا تو اس میں حرج نہیں۔( ردالحتار، 1: 293، دار الفکر للطباعة والنشر، بيروت)
معلوم ہوا کہ خواتین حیض کے ایام میں تلاوت کی نیت سے قرآنِ مجید نہیں پڑھ سکتیں۔ اگر کوئی معلمہ ہے تو ہجے کروا سکتی ہے۔ مثلاً عَلَّمَ الْقُرْاٰن دو الفاظ ہیں‘ عَلَّمَ کو الگ ادا کرے گی اور الْقُرْاٰن کو الگ۔ ملاکر نہیں پڑھ سکتی۔
حیض والی عورت ایسے کپڑے یا کسی اور چیز سے مصحفِ قرآن کو چھو سکتی ہے جو اس سے متصل (جُڑی ہوئی) نہ ہو‘ مثلاً غلاف، تھیلا، کوئی کپڑا یا مصحف کی اکھڑی ہوئی جلد وغیرہ۔ اسی طرح حیض والی عورت احادیث میں مذکور مسنون دعائیں، تلاوت کی نیت کیے بغیر دعائیہ قرآنی آیات، کلماتِ طیبہ، تسبیحات، استغفار وظائف اور درود و سلام بھی بلاکراہت پڑھ سکتی ہے۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔20/07/2023