(سوال نمبر ١٨٣)
شریعت اسلام میں گستاخ رسول کی سزا کیا ہے؟
:------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
(1) جو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو واصل جہنم کرے اسے دہشت گرد کہنا کیسا ہے ؟(2) گستاخ کے قتل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات کے خلاف بتانا کیسا ہے ؟(3) غازی کی مذمت کرنا کیسا ہے ؟یعنی گستاخ رسول کو واصل جہنم کرنے والا غازی ہے؟ ۔مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں کرم بالائے کرم ہوگا
سائل:- محمد عامر بولارو ۔
:---------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
(1) گستاخ رسول کو قتل کرنا یہ ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد واحد کا البتہ اسے دہشت گرد نہیں کہ سکتے ۔
(2) ظاہر سی بات ہے جب یہ کام ہی ریاست کے ذمے ہیں پس کسی فرد بشر کو یہ حق حاصل نہیں کہ گستاخ کو قتل کردے پھر اس کا حامی اسے قتل کردے پھر دو سے خاندان میں خاندان سے قومی سطح پر یہ مسئلہ بھڑک اٹھے جو کہ رواں نہیں ہے ۔
(3) اگر اس نے یہ کام سر انجام دے دیا ہے جو کہ درست نہیں تھا پھر بھی اس بابت سکوت احسن ہے ۔
چاہے مسلم ملک ہو یا غیر مسلم یہ کام حکومت کے ذمے ہے ۔
واضح رہے کہ آقا علیہ السلام کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی، توہین و تنقیص، تحقیر و استخفاف، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے۔
اب رہی بات کہ گستاخ رسول کا تعین اور سزا لاگو کون کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ریاست اور قانون کے ہوتے ہوئے کسی فرد واحد یا جماعت کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ ہاں اگر عدالتیں انصاف مہیا نہ کررہی ہوں تو قوم کا فرض بنتاہے کہ جدوجھد کریں اور نظام تبدیل کروائیں۔ مگر یہ اعتراض کرنا غلط ہے کہ عدالتیں انصاف مہیا نہیں کرتیں تو قانون کو ہاتھ میں لے لیا جائے۔ طاقت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ عوام چاہے تو بحیثیت قوم اٹھے اور بوسیدہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے تاکہ ہر ایک کو عدل وانصاف مل سکے۔
گستاخ رسول کی سزا اسکی توبہ کی قبولیت اور عدم قبولیت کے حوالے سے تین موقف ہیں ،
(١) الله سبحانه و تعالى قرآن مجید میں إرشاد فرماتا ہے ۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاﷲِ وَاٰيٰـتِهِ وَرَسُوْلِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُوْنَo لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ ط
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو صرف (سفر کاٹنے کے لیے) بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ فرما دیجیے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاق کر رہے تھے۔ (اب) تم معذرت مت کرو، بے شک تم اپنے ایمان (کے اظہار) کے بعد کافر ہوگئے ہو۔‘‘(التوبة، 9: 65، 66)
مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
{قَدْ کَفَرْتُمْ} قد أظهرتم الکفر بإيذاء الرسول والطعن فيه.
تم کافر ہو چکے ہو یعنی تمہارا کفر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت وتکلیف دینے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں طعن وتشنیع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوچکا ہے۔
(عبد اﷲ بن عمر بيضاوی، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 3: 155، بيروت، لبنان: دارالفکر۔أبو السعود محمد بن محمد، تفسير أبو السعود، 4: 80، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي۔آلوسي، روح المعاني، 10: 131، بيروت، لبنان: دارا حياء التراث العربي)
دیگر مفسرین کرام کی اکثریت نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت مبارکہ میں ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًاo
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘(الاحزاب، 33: 57)
امام ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اہانت وگستاخی کے مرتکب کی سزا کے متعلق فرماتے ہیں:
فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته لأن الحد لايسقط بالتوبة، وأفاد أنه حکم الدنيا وأما عند اﷲ تعالیٰ فھي مقبولة.
اسے حداً قتل کر دیا جائے گا۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط ومعاف نہیں ہوتی، یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں اﷲ رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی۔‘‘
ابن عابدين، رد المحتار، 4: 230، 231، بيروت، لبنان: دارالفکر
محمد بن علی بن محمد علائو الدین حصنی دمشقی المعروف حصکفی فرماتے ہیں:
الکافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب اﷲ تعالیٰ قبلت لأنه حق اﷲ تعالیٰ والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک في عذابه وکفره کفر.
انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیں ہوگی۔ اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی) تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے (جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے) جبکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔
(حصکفي، الدر المختار، 4: 231، 232، بيروت، لبنان: دارالفکر)
(١) دوسرا مؤقف یہ ہے کہ گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا حداً قتل ہی ہے لیکن قبولیت توبہ کے امکان کے ساتھ بایں طور پر اگر وہ قبل الأخذ گرفتاری یا مقدمے کے اندراج سے پہلے تائب ہو تو یہ توبہ لاسقاط الحد ہوگی۔ اس توبہ سے قتل کی سزا اٹھ جائے گی۔ اکثر شوافع اور بعض احناف نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے فرمایا کوئی بھی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب اور عیب جوئی کی یا آپ کی شان اقدس میں تنقیص و اہانت کا مرتکب ہوا تو وہ کافر ہو جائے گا اور بیوی سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔
فإن تاب وإلا قتل.
اگر وہ توبہ کرے تو درست وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
(ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 234)
امام ابن عابدین شامی نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا دوسرا قول اس طرح بیان کیا ہے:
إن کان مسلما يستتاب فإن تاب وإلا قتل کالمرتد.
اگر کوئی مسلمان (شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کرے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ مرتد کی طرح قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ (ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 233)
احناف میں سے بعض ائمہ نے قبل الأخذ توبہ کی جو صورت بیان کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی عام مرتدین کی صف میں شامل کرتے ہوئے اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری کیے ہیں۔ چونکہ احناف کے نزدیک مرتد کو توبہ کا موقع دیا جاتا ہے۔ اتمام حجت کے لئے اس پر بھی توبہ پیش کی جاتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود اسے تعزیراً قید بھی کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ بعض ائمہ احناف نے حد ساقط کرنے کے لئے قبول توبہ کا جو قول کیا ہے اس میں سبب اختلاف ٹھہرا کہ ان کے نزدیک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی اور اہانت و تنقیص ایسا کفر ہے جو باعث ارتداد ہے۔ اس لئے انہوں نے ارتداد کی صورت میں قبولیت توبہ کے احکام کا گستاخ رسول پر بھی اطلاق کر دیا ہے۔ بنابریں ان کے نزدیک اس کے لئے توبہ کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے جبوطکہ
بعض ائمہ نے تطبیق پیدا کرتے ہوئے فرمایا کہ امر واقعہ یہ ہے جو شخص حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی و اہانت کے سبب کافر ومرتد ہوا ہے وہ عام مرتدین سے مستثنیٰ ہے۔ عام مرتدین کے لئے اتمام حجت کے طور پر قبولیت توبہ کے معاملات ہوں گے جبکہ شاتم رسول کے لئے قبولیت توبہ کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اسی چیز کو
امام الشیخ زین الدین ابن نجیم حنفی رحمہ اﷲ ’’البحر الرائق‘‘ میں يعرض الاسلام علی المرتد (مرتد کو اسلام پیش کیا جائے) کے تحت عام مرتدین کے احکام بیان کرتے ہوئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کی بنا پر جو مرتد ہوا اسے اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ اور مستثنیات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
يستثنی منہ مسائل الأولی الردة بسب النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم. والثانية الردة بسب الشيخين أبي بکر وعمر. والثالثة لا تقبل توبة الزنديق في ظاهر المذهب. والحق ان الذي يقتل ولا تقبل توبته هو المنافق والرابعة توبة الساحر.
’ارتداد کے احکام میں سے چند مسائل مستثنیٰ ہیں، اس میں
پہلا مسئلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب وشتم کرنے کی وجہ سے مرتد ہونا ہے۔
دوسرا شیخین، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عہنما کو گالی دے کر مرتد ہونا ہے۔
تیسرا زندیق۔ ظاہر مذہب میں ان کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اوردرست بات یہی ہے کہ جسے قتل کیا جائے گا اور جس کی توبہ قبول نہ ہوگی وہ منافق ہے۔ چوتھا جادوگر کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔‘‘
(ابن نجيم، البحرالرائق، 5: 135، 136)
امام حصکفی رحمہ اﷲ بھی عام مرتدین کے احکام سے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
کل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا الکافر بسب نبی من الانبياء فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته مطلقا.
ہر مسلمان جو مرتدہوا اس کی توبہ قبول ہوگی سوائے اس کافر کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی گستاخی کے باعث کافر ہوا اسے حداً قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا (قبل الاخذ اور بعد الاخذ) اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘ (حصکفی، الدرالمختار، 4: 231، 232)
تیسرا مؤقف پہلے مؤقف کی ہی تائید ہے۔ سزائے قتل حداً واجب ہے۔ توبہ بھی قبول نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مؤقف ثانی کے مطابق قبل الأخذ قبولیت توبہ کا مفہوم ان کے ہاں عند اللہ مقبولیت کا ہے، عند الناس قبولیت مراد نہیں۔ اس کی توبہ سے آخرت کی سزا وعقوبت تو مرتفع ہوجائے گی۔ مگر توبہ سے حد قتل قطعاً ساقط نہیں ہو گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ موقف ثالث کے مطابق قبل الأخذ عنداللہ قبولیت توبہ سے اس شخص کو یہ فائدہ ہو گا کہ سزائے موت کے بعد اس پر احکام اسلام کا اجراء ہوگا، نماز جنازہ ادا کی جائے گی، تکفین و تدفین میں بھی اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ درحقیقت تیسرا موقف بھی پہلا مؤقف ہی ہے۔ بایں وجہ اس میں بھی قبولیت توبہ کو اسقاط قتل کے ساتھ متعلق نہیں کیا گیا بلکہ قبولیت توبہ کا تعلق عند اللہ مقبولیت کے ساتھ خاص ہے اور اس کے وقت موت، مسلم و غیر مسلم ہونے کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اس بناء پر ہی تو فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور اس کی تکفین و تدفین کی جائے یا نہ کی جائے۔
پہلے اور تیسرے موقف میں یہی بات قدرے مشترک ہے کہ سزائے موت کسی بھی صور ت میں مرتفع نہ ہو گی۔ بہر صورت اس کا نفاذ ہو گا سو اس اعتبار سے تیسرا موقف بھی حقققتًا پہلا موقف ہی قرار پاتا ہے۔
امام ابن عابدین شامی تیسرے موقف کے حوالے سے گستاخ رسول کی مطلقًا عدم قبولیت توبہ اور اس پر بہر صورت حد قتل کے اجراء و نفاذ اور بعد از توبہ اس پر مسلمانوں کے احکام جاری کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
فيجب قتل هؤلاء الأشرار الکفار تابوا أو لم يتوبوا، لأنهم إن تابوا وأسلموا قتلوا حداً علي المشهور وأجري عليهم بعد القتل احکام المسليمن وإن بقوا علی کفرهم وعناد هم قتلوا کفراً وأجری عليهم بعد القتل أحکام المشرکين.
(شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی و بے ادبی کرنے والے) ایسے شریر وگستاخ کفار کو قتل کرنا واجب ہے خواہ یہ توبہ کریں یا نہ کریں۔ اس لئے کہ اگر یہ (گستاخی و اہانت کے بعد) توبہ کر لیں اور دوبارہ مسلمان ہو بھی جائیں تو انہیں مذہب مشہور کے مطابق حداً قتل کر دیا جائے گا۔ (توبہ اور دوبارہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے)
قتل کے بعد ان پر مسلمانوں کے احکام (تدفین وتکفین ) جاری کیے جائیں گے.
اور اگر یہ اپنے کفر اور عداوت ودشمنی پر قائم رہیں تو انہیں کفر وارتداد کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا۔ اور قتل کے بعد ان پر مشرکین کے احکام جاری کیے جائیں گے۔
(ابن عابدين، تنقيح الفتاوی الحامدية، 1: 103، بيروت، لبنان: دارالفکر)
والله ورسوله أعلم بالصواب.
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨ سرہا، خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔5/11/2020