قربانی سے پہلے ناخن اور بال کٹوانا کیسا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جس کے نام سے قربانی ہے کیا وہ ہی بال اور ناخن نہیں کٹا سکتے ؟ یا دوسرے لوگ کے جس کے نام سے قربانی نہیں ہے وہ بھی بال اور ناخن نہیں کٹا سکتے؟ حوالہ کے ساتھ جواب دیجئے مہربانی ہوگی۔
سائل محمد الطاف رضا مقام لگڈی ضلع سرہا نیپال
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب: بعونه تعالى عز وجل
ذی الحج کے ابتدائی دس دن میں بال اور ناخن نہ کاٹنا حديث سے ثابت ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ اور جسے قربانی نہیں دینی ہے تو وہ بھی اگر یہ سنت اپنائے تو اسے بھی ثواب ملے گا ۔۔
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا.
جب عشرہ ذی الحج داخل ہو جائے تو جس شخص کے پاس قربانی ہو اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے۔
مسلم، الصحيح،3: 1565، رقم: 1977، بيروت: دار احياء التراث العربي.
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والا، ذی الحج کا چاند نظر آنے سے قربانی دینے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے، لہٰذا قربانی کرنے والا شخص ذی الحج کا چاند نظر آنے سے ایک دو دن پہلے غیر ضروری بالوں کی صفائی کرے اور اپنے ناخن و سر کے بال تر شوا لے کیونکہ ذی الحج کے پہلے عشرہ میں ان کا کاٹنا اور ترشوالے رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال