Type Here to Get Search Results !

پرائز بونڈ پر نکلا ہوا انعام جائز ہے یا نہیں؟

 (سوال نمبر 5025)
پرائز بونڈ پر نکلا ہوا انعام جائز ہے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پرائز بونڈ پر نکلا ہوا انعام جائز ہے یا نہیں اس کا جواب دیں گے تو نوازش ہوگی
سائل دانش، کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عزوجل 
پرائز بونڈ پر نکلا ہوا انعام جائز نہیں ہے چونکہ پرائز بانڈ کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقم میں سود اور جوا دونوں حیثیتیں موجود ہیں اس لیے پرائز بانڈ کی خرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے۔ یہ رقم دو وجوہات کی بنا پر حرام ہے 
(1) ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو رقم خریدار نے پرائز بانڈ کی خریداری کی صورت میں دی ہے اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض دے کر اس پر اضافہ لینا سود ہے خواہ قرض کی اصل رقم پر اضافی رقم کا ملنا یقینی ہو یا اضافی رقم ملنے کاحتمال موجود ہو اس اعتبار سے پرائز بانڈ کی لین دین جائز نہیں ہے۔
(2) بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائزبانڈ کی دستاویز حاصل کرتے ہیں، ہرشخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ میرا نام نکلے اور انعامی رقم حاصل کرسکوں چند افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں اس طور پر رقم لگانا کہ کسی ایک کو یا چند مخصوص افراد کو اضافی رقم ملے اور بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں یہ جوئے کی ایک صورت ہے اس حیثیت سے بھی پرائز بانڈ کا لین دین ناجائز ہے اس لئے پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم سود اور جوئے پرمشتمل ہونے کی بنا پر حرام ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ  (البقرۃ، الایة: 278- 279)
صحیح مسلم میں ہے 
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء۔ 
(صحیح مسلم: (227/2)
عمدۃ القاری میں ہے 
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔
(عمدۃ القاری: (435/8)
مصنف ابن ابی شیبہومیں ہے
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر
مصنف ابن ابی شیبہ
: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، )
فتاوی شامی میں ہے 
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص
(رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 403/6، ط: سعید)
واضح رہے کہ مذکورہ حکم اس خاص پرائز بانڈ کا ہے جو پریمئیم کے نام سے پاکستان میں پہلی مرتبہ 40،000 کا جاری ہوا ہے جبکہ پہلے سے جاری شدہ دیگر پرائز بانڈ جن کی خرید وفروخت کی جاتی ہے وہ جائز ہیں اور ان پر حاصل ہونے والا انعام بھی جائز ہے کیونکہ وہ قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہیں اسی لئے گُم ہونے جل جانے یا چوری ہوجانے کی صورت میں ان کا کوئی بدل نہیں دیا جاتا بلکہ جس کے ہاتھ میں ہو اُسے ہی مالک سمجھا جاتا ہے اسی لئے اسٹیٹ بینک اور ہر مالیاتی ادارہ بلکہ ہر شخص کرنسی کی طرح ہی ان بانڈ کی خرید وفروخت کرتا ہے کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ کسی قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہے یہی وہ واضح فرق ہے جو عام پرائز بانڈ اور پریمئیم پرائز بانڈ کے مابین ہے جس کی وجہ سے دونوں کا حکم جدا جدا ہے۔(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری  صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔
22/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area