(سوال نمبر 5024)
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے کیا مطلب ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے کیا مطلب ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اس کی تفسیر و تشریح آسان انداز میں قرآن وحدیث کی روشنی جواب عنایت فرما کر شکریہ موقع دیں۔
سائل:-محمد ناصر حسین مقیم حال دوبئی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ
بندہ جس چیز کا کسب اور ارادہ کرتا ہے اللہ وہی چیز اس میں پیدا کردیتا ہے اس لیے یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ گمراہی کو پیدا کرتا ہے تو گمراہ کی مذمت کس لیے ہے ؟ اور جب ہدایت اللہ پیدا کرتا ہے تو ہدایت یافتہ کی تعریف کس سبب سے ہے ؟قرآن مجید میں ہے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی (وہ) بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں (بھٹکے ہوئے) ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر گامزن کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی (وہ) بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں (بھٹکے ہوئے) ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر گامزن کر دے۔ (الانعام : ٣٩)
اللہ تعالیٰ کے گمراہی پیدا کرنے کی توجیہ
جن کافروں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کی تکذیب کی جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا ان کی جہالت اور ان کی کج فہمی کی وجہ سے ان کی مثال بہرے شخص کی طرح ہے جو سنتا نہ ہو اور گونگے شخص کی طرح ہے جو بولتا نہ ہو۔ وہ حق کی طرف دعوت و ارشاد کو قبول کرنے کے لیے سننے اور حق کو پہچاننے کے باوجود اس کا اقرار نہیں کرتے اور وہ شرک بت پرستی اور جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور جہالت آباء و اجداد کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کے اندھیروں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ سو جو شخص بہرہ اور گونگا ہو اور اندھیروں میں بھٹک رہا ہو وہ کیسے صحیح راستہ پر گامزن ہوسکتا ہے یا ان تاریکیوں کے جال سے کس طرح نکل سکتا ہے ؟
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے ہو جس میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور جس میں چاہتا ہے گمراہی پیدا فرما دیتا ہے۔ جو شخص اللہ کی طرف بلائے جانے سے اعراض کرتا ہے اور جو دلائل اللہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے تکبر کرتا ہے اس شخص میں اللہ تعالیٰ گمراہی پیدا کردیتا ہے اور جو انسان اپنی سماعت بصارت اور عقل سے صحیح کام لے کر صحیح نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور وفکر کرتا ہے اور وسیع کائنات میں اس کی قدرت اور اس کی وحدت پر پھیلی ہوئی نشانیوں سے حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں ہدایت پیدا کردیتا ہے۔ (تفسیر تبیان القران سورۃ 6 الأنعام آیت 39)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔22/97/2023
سائل:-محمد ناصر حسین مقیم حال دوبئی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ
بندہ جس چیز کا کسب اور ارادہ کرتا ہے اللہ وہی چیز اس میں پیدا کردیتا ہے اس لیے یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ گمراہی کو پیدا کرتا ہے تو گمراہ کی مذمت کس لیے ہے ؟ اور جب ہدایت اللہ پیدا کرتا ہے تو ہدایت یافتہ کی تعریف کس سبب سے ہے ؟قرآن مجید میں ہے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی (وہ) بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں (بھٹکے ہوئے) ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر گامزن کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی (وہ) بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں (بھٹکے ہوئے) ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر گامزن کر دے۔ (الانعام : ٣٩)
اللہ تعالیٰ کے گمراہی پیدا کرنے کی توجیہ
جن کافروں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کی تکذیب کی جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا ان کی جہالت اور ان کی کج فہمی کی وجہ سے ان کی مثال بہرے شخص کی طرح ہے جو سنتا نہ ہو اور گونگے شخص کی طرح ہے جو بولتا نہ ہو۔ وہ حق کی طرف دعوت و ارشاد کو قبول کرنے کے لیے سننے اور حق کو پہچاننے کے باوجود اس کا اقرار نہیں کرتے اور وہ شرک بت پرستی اور جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور جہالت آباء و اجداد کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کے اندھیروں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ سو جو شخص بہرہ اور گونگا ہو اور اندھیروں میں بھٹک رہا ہو وہ کیسے صحیح راستہ پر گامزن ہوسکتا ہے یا ان تاریکیوں کے جال سے کس طرح نکل سکتا ہے ؟
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے ہو جس میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور جس میں چاہتا ہے گمراہی پیدا فرما دیتا ہے۔ جو شخص اللہ کی طرف بلائے جانے سے اعراض کرتا ہے اور جو دلائل اللہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے تکبر کرتا ہے اس شخص میں اللہ تعالیٰ گمراہی پیدا کردیتا ہے اور جو انسان اپنی سماعت بصارت اور عقل سے صحیح کام لے کر صحیح نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور وفکر کرتا ہے اور وسیع کائنات میں اس کی قدرت اور اس کی وحدت پر پھیلی ہوئی نشانیوں سے حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں ہدایت پیدا کردیتا ہے۔ (تفسیر تبیان القران سورۃ 6 الأنعام آیت 39)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔22/97/2023