Type Here to Get Search Results !

چہلم میں میت کے نام پر دئے گئے لوٹا چتائئ مسجد میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر4019)
چہلم میں میت کے نام پر دئے گئے لوٹا چتائئ مسجد میں استعمال کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
چہلم کے موقع پر میت کے نام سے جو لوٹا یا چٹائی سپارہ وغیرہ ایصال ثواب کے لئے دیا جاتا ہے اسے مسجد میں استعمال کرنا کیسا ہے ؟
مدلل جواب تحریر فرمائیں نوازش ہوگی
سائل:-مولانا اقبال احمد مہراج گنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
چہلم کے موقع سے اپنی طرف سے دینے والے میت کے ایصال ثواب کے لئے جو لوٹا چتائئ سپارہ وغیرہ مسجد ہی میں استعمال کرنے کے لیے دے تو  مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں اور اگر دینے والے فقرا کے لیے دے تو نہیں کر سکتے ہیں آپ اس سے پوچھ لیں پر بہتر یہ ہے کہ فقرا کو دے دیا جایے ۔
یاد رہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی دو صورتیں ہیں 
١/ کوئی بالغ وارث اپنے مال سے کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے
 ٢/ ترکہ یعنی میت کے چھوڑے ہوئے مال سے صدقہ کرے اس کی اجازت اُسی صورت میں ہے کہ جب سارے ورثا بالغ ہوں اور وہ سب مالِ میت سے صدقہ کرنے کی اجازت دیں اگر ایک بھی وارث نابالغ ہو یا ورثا اپنے حصے سے صدقہ کرنے کی اجازت نہ دیں تو پھر میت کے مال میں سے صدقہ کرنے کی اجازت نہیں بلکہ جو بالغ وارث صدقہ کرنا چاہے ، وہ اپنے حصے ہی سے صدقہ کرے گا ۔
حدیث پاک میں ہے
عن سعد بن عبادۃ انہ قال : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اِن ام سعد ماتت ، فایّ الصدقۃ افضل ؟ قال : الماء ، قال : فحفر بیرا و قال : ھذہ لام سعد 
حضرت سیدنا سعد بن عُبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، تو کونسا صدقہ افضل ہو گا ؟ ارشاد فرمایا : پانی ۔ راوی کہتے ہیں : تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنوں کھودا اور کہا : یہ سعد کی ماں کے لیے ہے (سنن ابی داؤد ، کتاب الزکاۃ ، باب فی فضل سقی الماء ، الحدیث : 1681 ، ج1 ، ص 248 ، مطبوعہ لاھور)
رد المحتار میں ہے 
صرح علماؤنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا ، کذا فی الھدایۃ ، بل فی زکاۃ التاترخانیۃ عن المحیط : الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین و المؤمنات ، لانھا تصل الیھم و لا ینقص من اجرہ شئ اھ و ھو مذھب اھل السنۃ و الجماعۃ 
 ہمارے علمائے کرام نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اس بات کو صاف بیان کیا ہے کہ انسان کے لیے اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو بخشنا جائز ہے ، (چاہے وہ عمل) نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا اس کے علاوہ ، اسی طرح ہدایہ میں ہے ۔ بلکہ محیط کے حوالے سے فتاویٰ تاترخانیہ کی کتاب الزکوٰۃ میں ہے : نفل صدقہ کرنے والے کے لیے افضل ہے کہ تمام مسلمان مَردوں اور مسلمان عورتوں کی نیت کر لے ، کیونکہ وہ انہیں پہنچتا ہے اور اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ، اھ اور یہ اہلِ سنت و جماعت کا مذہب ہے ۔
(رد المحتار علی الدر المختار ج 3 ، ص180ط  کوئٹہ)    
فتاوی رضویہ میں ہے 
اموات کو ایصالِ ثواب قطعاً مستحب  رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ (جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے ، تو چاہیے کہ اسے نفع پہنچائے)۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج9 ، ص604 ط رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
آپ فرماتے ہیں 
کپڑا، جوتے یا جو چیز مسکین کو نفع دینے والی مسکین کی نیت سے رکھیں ، کوئی حرج نہیں ثواب ہے، مگر فاتحہ کے وقت گھی کا چراغ جلانا فضول ہے، اور بعض اوقات داخلِ اسراف ہوگا، اس سے احتراز چاہیے (فتاوٰی رضویہ ج9  ص616  ط رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
   ایک مقام پر مالِ وراثت سے کھانا کھلانے کے متعلق فرماتے ہیں
غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے  نہ ان سے اس کا اذن لیا جاتا ہے ، جب تو یہ امر سخت حرامِ شدید پر متضمن ہوتا ہے  مالِ غیر میں بے اذنِ غیر تصرف خود ناجائز ہے  خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے  نہ اس کے باپ نہ اس کے وصی کو ہاں  اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں  تو حرج نہیں بلکہ خوب ہے ، بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مالِ خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں ، تو سب وارث موجود و بالغ و راضی ہوں ۔ملخصا (فتاویٰ رضویہ ج ص 664۔665 ط رضا فاؤنڈیشن لاھور)
 بہار شریعت میں ہے 
تیجہ ، دسواں ، چالیسواں ، ششماہی  برسی کے مصارف میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اپنے مال سے جو چاہے ، خرچ کرے اور میّت کو ثواب پہنچائے اور میّت کے مال سے یہ مصارف اُسی وقت کيے جائیں کہ سب وارث بالغ ہوں اور سب کی اجازت ہو ، ورنہ نہیں ، مگر جو بالغ ہو اپنے حصہ سے کر سکتا ہے۔
(بہارِ شریعت ح 4 ج1 ، ص822 ،ط  مکتبۃ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
11/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area