کیا کربلا میں صرف 72 افراد شہید ہوۓ تھے؟ اور حضرت عباس کی شہادت کا ایک افسانہ
:------------------------:
امام عالی مقام جب کربلا کی طرف رخ کرتے ہیں تو آپ کے ساتھیوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے جس میں شیعہ سنی دونوں ہیں،،
لیکن سب سے زیادہ تعداد 1000 تک ذکر کی گئ ہے،،
بہر حال ہم صرف اس کو ذکر کریں گے کیا میدان کربلا میں صرف 72 افراد ہی شہید ہوۓ تھے، تو عام طور سے یہی بیان ہوتا ہے اور عام کتب میں بھی یہی 72 کی تعداد لکھی ہوتی ہے،، لیکن مقام تحقیق میں ان کی تعداد مختلف اقوال کے ساتھ سیکڑوں میں پہنچ جاتی ہیں،،
اور میں صرف اس تعداد کو ذکر کروں گا جو عاشوراء کے روز تھی،۔
سبط بن جوزی نے انکی یہ تعداد 145 بتائی ہے وہ لکھتے ہیں،۔
وکان فی خمستہ و أربعین فارسا و مأتہ راجل۔،
کہ انکی تعداد 45 گھڑسوار اور 100 پیادے تھے،۔
(تذکرتہ الخواص جلد 1 صفحہ 222)
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
امام عالی مقام جب کربلا کی طرف رخ کرتے ہیں تو آپ کے ساتھیوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے جس میں شیعہ سنی دونوں ہیں،،
لیکن سب سے زیادہ تعداد 1000 تک ذکر کی گئ ہے،،
بہر حال ہم صرف اس کو ذکر کریں گے کیا میدان کربلا میں صرف 72 افراد ہی شہید ہوۓ تھے، تو عام طور سے یہی بیان ہوتا ہے اور عام کتب میں بھی یہی 72 کی تعداد لکھی ہوتی ہے،، لیکن مقام تحقیق میں ان کی تعداد مختلف اقوال کے ساتھ سیکڑوں میں پہنچ جاتی ہیں،،
اور میں صرف اس تعداد کو ذکر کروں گا جو عاشوراء کے روز تھی،۔
سبط بن جوزی نے انکی یہ تعداد 145 بتائی ہے وہ لکھتے ہیں،۔
وکان فی خمستہ و أربعین فارسا و مأتہ راجل۔،
کہ انکی تعداد 45 گھڑسوار اور 100 پیادے تھے،۔
(تذکرتہ الخواص جلد 1 صفحہ 222)
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
و انھم لقریب ماءتہ رجل
اور انکی تعداد 100 کے قریب تھی،۔
(تاریخ الاسلام جلد 5 صفحہ 15)
بحار الانوار میں کئ روایت ہے مثلاً صبح فجر میں 32 گھڑسوار اور 40 پیادے ۔،
114 کی بھی ہے
لیکن میں خاص شہداء کی ذکر کرتا ہوں، لکھتے ہیں
و روی ان رؤوس أصحاب الحسین اہل بیتہ کانت ثمانیتہ و سبعین راسا،،
کہ روایات کی گئ ہے امام عالی مقام کے ساتھیوں جن میں اہلبیت بھی شامل ہیں ان کے سر 78 تھے ،۔
(بحار الانوار جلد 45 صفحہ 44)
واضح رہے بحار الانوار شیعوں کی معتبر کتاب ہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں۔،
آپ نے کثیر تعداد سے جنگ کی اور آپ کے ساتھ اپنے اہل اور بھائیوں میں سے اسی 80 سے تھوڑا زیادہ نفوس تھے،،
(الصواعق المحرقہ صفحہ 511)
سوانحہ کربلا صفحہ 85 📗پر
ان کی تعداد 82 لکھی ہے،،
خلاصہ کلام یہ ہے اس تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں،۔ مزید
یہ تعداد 91 بھی بیان کی گئ ہے 139 بھی بیان کی گئ ہے 300 بھی بیان کی گئ ہے ،
لیکن عام طور پر اور عام کتابوں میں ان کی تعداد 72 ہی لکھی ہوتی ہے،۔
حضرت عباس ابن علی کی شہادت اور ایک افسانہ
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تضاد سے بھرا پڑا ہے،،
لیکن جس طرح عام طور پر آپ کی شہادت ذکر کی جاتی ہے معتبر کتب میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے، میں مقتل ابو مخنف سے نقل کرتا ہوں۔ واضح رہے ابو مخنف روایات گھڑتا تھا یہ شیعہ تھا ۔ چونکہ وہیں اس کی روایت سے اس واقعہ کو اخذ کیا جاتا ہے،۔
میں عربی عبارت چھوڑ رہا ہوں صرف اردو میں ذکر کرتا ہوں جسے شوق ہو وہ مقتل ابو مخنف میں دیکھ لے (مقتل ابو مخنف صفحہ📕 89)
پر ہے جب امام عالی مقام کو پیاس لگی تو آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کنواں کھودا لیکن اس میں پانی نہ نکلا پھر آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرات سے پانی لانے کے لیے کہا ۔،۔آپ کچھ ساتھیوں کو لیکر فرات پر جاتے ہیں اور وہاں یزیدی فوج سے جنگ ہوتی ہے،
حضرت عباس کے ہاتھ پر تلوار مار کر ایک ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے پھر آپ تلوار کو دوسرے ہاتھ میں لے تے ہیں۔،
پھر اس کے بعد دوسرے ہاتھ پر تلوار مار کر آپ کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے پھر آپ منہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرتے ہیں۔، آپ کے اوپر اتنے تیر برساۓ جاتے ہیں،۔کے آپ کی زرہ خارپشت کی طرح ہوجاتی ہے ۔ پھر جو مشک آپ کی پیٹھ پر لدی ہوئی تھی اس پر تیر برسانے کا حکم دیا جاتا ہے ،تیر برساۓ جاتے ہیں تو مشک پھٹ جاتی ہے۔، پھر آپ کے سر پر وار کیا جاتا ہے جس سے آپ گھوڑے سے نیچے گر جاتے ہیں،، قارئین کرام دیکھا آپ نے اس میں کتنی من گھڑت باتیں موجود ہیں اس شہادت کو دردناک بنانے کی کوشش کی گئ ہے جس کا مقصد صرف لوگوں کو رلانا دھلانا ہے، یہ محض ایک افسانہ ہے جی ہاں اور بلکل عقل کے خلاف بھی ہے جو روایت عقل و شواہد کے خلاف ہو محدثین اس پر موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔
اس میں لکھا ہے امام عالی مقام اور ساتھیوں نے کنواں کھودا تھا جس میں پانی نہ نکلا یہ بھی غلط بات ہے چونکہ کربلا ایک ایسا میدان تھا جس کے ارد گرد چشمے جاری تھے جیسا کے ہم اس سے پہلی تحریر میں ذکر کر اۓ ہیں معجم البلدان وغیرہ کے حوالے سے
نیز وہ بہت بڑی نہر ہے تو ظاہر سی بات ہے اس کے پاس کنواں کھودا جاۓ گا تو پانی نکل اۓ گا، اس واقعہ میں لکھا ہے آپ کا ایک ہاتھ کٹا تو تلوار دوسرے ہاتھ میں پکڑ لی یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ جب تلوار ہاتھ میں تھی اور جب ہاتھ کٹ کر گر گیا تو ظاہر سی بات ہے تلوار بھی زمین پر گر جاۓ گی اور اس کو اٹھانے کے لیے زمین پر اترنا ہوگا گھوڑے پر سے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوا، اور تو اور چلیں دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ بھی لی تو جب دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو سوال یہ ہے منہ میں تلوار پکڑ کر آپ لڑے کیسے،،۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ منہ میں تلوار لیکر آپ لڑے،، جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو ظاہر بات ہے تلوار نیچے زمین پر گر جاۓ گی نہ کے منہ میں اۓ گی۔، اور اگر یہ بات مان بھی لیں کہ منہ میں پکڑ لی تو پھر آپ منہ سے لڑے کیسے اس کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔کے یہ سب باتیں عقل و شواہد کے خلاف ہیں جس کو عقل ہرگز تسلیم نہیں کرسکتی،اور اس میں کہا گیا ہے کہ زرہ بھی چھلنی ہوگئ ، اب جب زرہ بھی چھلنی ہوگئ تو پھر آپ کو تیر کیوں نہ لگا ظاہر سی بات ہے جب کوئی چیز کسی چیز کو پھاڑ دیگی تو وہ جسم تک جا پہنچے گی۔ لیکن یہاں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا اور اس جھوٹ کی جسارت تو دیکھوں مشک بھی آپ کی پیٹھ پر لدی ہوئی تھی لیکن مشک کو ایک تیر بھی نہ لگا بلکہ سب تیر زرہ پر لگے، اور مشک سلامت رہی مجبوراً مشک پر تیر چلانے کا حکم دیا گیا جس وجہ سے مشک بعد میں پھٹ گئ،
قارئین دیکھا آپ نے یہ محض ایک افسانہ ہے اس میں جی بھر کر جھوٹ بولا گیا ہے من گھڑت باتیں بنائی گئ ہیں سیدھی اور صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ہے آپ پانی لاتے ہوۓ شہید ہوۓ ہیں، آپ کی شہادت کا ذکر معتبر کتب میں موجود ہے مگر اس طرح نہیں جس طرح بیان کیا جاتا ہے،
اور انکی تعداد 100 کے قریب تھی،۔
(تاریخ الاسلام جلد 5 صفحہ 15)
بحار الانوار میں کئ روایت ہے مثلاً صبح فجر میں 32 گھڑسوار اور 40 پیادے ۔،
114 کی بھی ہے
لیکن میں خاص شہداء کی ذکر کرتا ہوں، لکھتے ہیں
و روی ان رؤوس أصحاب الحسین اہل بیتہ کانت ثمانیتہ و سبعین راسا،،
کہ روایات کی گئ ہے امام عالی مقام کے ساتھیوں جن میں اہلبیت بھی شامل ہیں ان کے سر 78 تھے ،۔
(بحار الانوار جلد 45 صفحہ 44)
واضح رہے بحار الانوار شیعوں کی معتبر کتاب ہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں۔،
آپ نے کثیر تعداد سے جنگ کی اور آپ کے ساتھ اپنے اہل اور بھائیوں میں سے اسی 80 سے تھوڑا زیادہ نفوس تھے،،
(الصواعق المحرقہ صفحہ 511)
سوانحہ کربلا صفحہ 85 📗پر
ان کی تعداد 82 لکھی ہے،،
خلاصہ کلام یہ ہے اس تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں،۔ مزید
یہ تعداد 91 بھی بیان کی گئ ہے 139 بھی بیان کی گئ ہے 300 بھی بیان کی گئ ہے ،
لیکن عام طور پر اور عام کتابوں میں ان کی تعداد 72 ہی لکھی ہوتی ہے،۔
حضرت عباس ابن علی کی شہادت اور ایک افسانہ
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تضاد سے بھرا پڑا ہے،،
لیکن جس طرح عام طور پر آپ کی شہادت ذکر کی جاتی ہے معتبر کتب میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے، میں مقتل ابو مخنف سے نقل کرتا ہوں۔ واضح رہے ابو مخنف روایات گھڑتا تھا یہ شیعہ تھا ۔ چونکہ وہیں اس کی روایت سے اس واقعہ کو اخذ کیا جاتا ہے،۔
میں عربی عبارت چھوڑ رہا ہوں صرف اردو میں ذکر کرتا ہوں جسے شوق ہو وہ مقتل ابو مخنف میں دیکھ لے (مقتل ابو مخنف صفحہ📕 89)
پر ہے جب امام عالی مقام کو پیاس لگی تو آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کنواں کھودا لیکن اس میں پانی نہ نکلا پھر آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرات سے پانی لانے کے لیے کہا ۔،۔آپ کچھ ساتھیوں کو لیکر فرات پر جاتے ہیں اور وہاں یزیدی فوج سے جنگ ہوتی ہے،
حضرت عباس کے ہاتھ پر تلوار مار کر ایک ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے پھر آپ تلوار کو دوسرے ہاتھ میں لے تے ہیں۔،
پھر اس کے بعد دوسرے ہاتھ پر تلوار مار کر آپ کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے پھر آپ منہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرتے ہیں۔، آپ کے اوپر اتنے تیر برساۓ جاتے ہیں،۔کے آپ کی زرہ خارپشت کی طرح ہوجاتی ہے ۔ پھر جو مشک آپ کی پیٹھ پر لدی ہوئی تھی اس پر تیر برسانے کا حکم دیا جاتا ہے ،تیر برساۓ جاتے ہیں تو مشک پھٹ جاتی ہے۔، پھر آپ کے سر پر وار کیا جاتا ہے جس سے آپ گھوڑے سے نیچے گر جاتے ہیں،، قارئین کرام دیکھا آپ نے اس میں کتنی من گھڑت باتیں موجود ہیں اس شہادت کو دردناک بنانے کی کوشش کی گئ ہے جس کا مقصد صرف لوگوں کو رلانا دھلانا ہے، یہ محض ایک افسانہ ہے جی ہاں اور بلکل عقل کے خلاف بھی ہے جو روایت عقل و شواہد کے خلاف ہو محدثین اس پر موضوع ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔
اس میں لکھا ہے امام عالی مقام اور ساتھیوں نے کنواں کھودا تھا جس میں پانی نہ نکلا یہ بھی غلط بات ہے چونکہ کربلا ایک ایسا میدان تھا جس کے ارد گرد چشمے جاری تھے جیسا کے ہم اس سے پہلی تحریر میں ذکر کر اۓ ہیں معجم البلدان وغیرہ کے حوالے سے
نیز وہ بہت بڑی نہر ہے تو ظاہر سی بات ہے اس کے پاس کنواں کھودا جاۓ گا تو پانی نکل اۓ گا، اس واقعہ میں لکھا ہے آپ کا ایک ہاتھ کٹا تو تلوار دوسرے ہاتھ میں پکڑ لی یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ جب تلوار ہاتھ میں تھی اور جب ہاتھ کٹ کر گر گیا تو ظاہر سی بات ہے تلوار بھی زمین پر گر جاۓ گی اور اس کو اٹھانے کے لیے زمین پر اترنا ہوگا گھوڑے پر سے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوا، اور تو اور چلیں دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ بھی لی تو جب دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو سوال یہ ہے منہ میں تلوار پکڑ کر آپ لڑے کیسے،،۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ منہ میں تلوار لیکر آپ لڑے،، جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو ظاہر بات ہے تلوار نیچے زمین پر گر جاۓ گی نہ کے منہ میں اۓ گی۔، اور اگر یہ بات مان بھی لیں کہ منہ میں پکڑ لی تو پھر آپ منہ سے لڑے کیسے اس کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔کے یہ سب باتیں عقل و شواہد کے خلاف ہیں جس کو عقل ہرگز تسلیم نہیں کرسکتی،اور اس میں کہا گیا ہے کہ زرہ بھی چھلنی ہوگئ ، اب جب زرہ بھی چھلنی ہوگئ تو پھر آپ کو تیر کیوں نہ لگا ظاہر سی بات ہے جب کوئی چیز کسی چیز کو پھاڑ دیگی تو وہ جسم تک جا پہنچے گی۔ لیکن یہاں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا اور اس جھوٹ کی جسارت تو دیکھوں مشک بھی آپ کی پیٹھ پر لدی ہوئی تھی لیکن مشک کو ایک تیر بھی نہ لگا بلکہ سب تیر زرہ پر لگے، اور مشک سلامت رہی مجبوراً مشک پر تیر چلانے کا حکم دیا گیا جس وجہ سے مشک بعد میں پھٹ گئ،
قارئین دیکھا آپ نے یہ محض ایک افسانہ ہے اس میں جی بھر کر جھوٹ بولا گیا ہے من گھڑت باتیں بنائی گئ ہیں سیدھی اور صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ہے آپ پانی لاتے ہوۓ شہید ہوۓ ہیں، آپ کی شہادت کا ذکر معتبر کتب میں موجود ہے مگر اس طرح نہیں جس طرح بیان کیا جاتا ہے،
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:-9917420179