(سوال نمبر 5080)
اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ایسا کہنا کیسا ہے ؟
....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ایسا کہنا کیسا ہے بکر نے زید سے کہا یہ جملہ کفر ہے کہاں تک درست ہے آسان لفظوں حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:- غلام یزدانی مرکزی بریلی شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے، لیکن اس کی ذات کو کسی ایک مقام کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ زمان و مکاں سے پاک ہے۔ ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکتیں۔ ﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ذاتاً ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے، البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے ۔ اْس کی معیت ہر کسی کو حا صل ہے۔
فتاوی شارح بخاری میں ہے
یہ جملہ کہا کہ خداہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے۔ حدیقه ندیه میں ایسے قائل كو کافر کہا ہے، اگرچہ مذہب متكلمين مختار للفتوی پر کافر نہیں کہا جائے گا مگر احتیاطاً توبه و تجديد ایمان و نکاح کا حكم دیا جائے گا۔ یہ تاويل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے. ”یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ“ پر قیاس ، قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں۔
علاوہ ازیں یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی بنص قرآن حرام فرمایا گیا: ”فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ لهذا علماء نے تصریح فرمائی کہ اگرچہ نصوص میں ”يد، وجه، قدم“ وارد ہیں مگر سوائے مواقع ورود اور كہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سے مراد قوت ہو۔ (شارح بخاری ج ١ ص ١١٣)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
*كتبه محمد مجيب قادري لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
26/07/2023
اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ایسا کہنا کیسا ہے ؟
....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ایسا کہنا کیسا ہے بکر نے زید سے کہا یہ جملہ کفر ہے کہاں تک درست ہے آسان لفظوں حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:- غلام یزدانی مرکزی بریلی شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے، لیکن اس کی ذات کو کسی ایک مقام کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ زمان و مکاں سے پاک ہے۔ ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکتیں۔ ﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ذاتاً ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے، البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے ۔ اْس کی معیت ہر کسی کو حا صل ہے۔
فتاوی شارح بخاری میں ہے
یہ جملہ کہا کہ خداہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے۔ حدیقه ندیه میں ایسے قائل كو کافر کہا ہے، اگرچہ مذہب متكلمين مختار للفتوی پر کافر نہیں کہا جائے گا مگر احتیاطاً توبه و تجديد ایمان و نکاح کا حكم دیا جائے گا۔ یہ تاويل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے. ”یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ“ پر قیاس ، قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں۔
علاوہ ازیں یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی بنص قرآن حرام فرمایا گیا: ”فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ لهذا علماء نے تصریح فرمائی کہ اگرچہ نصوص میں ”يد، وجه، قدم“ وارد ہیں مگر سوائے مواقع ورود اور كہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سے مراد قوت ہو۔ (شارح بخاری ج ١ ص ١١٣)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
*كتبه محمد مجيب قادري لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
26/07/2023