Type Here to Get Search Results !

کیا وراثت میں بیٹیوں کا حصہ نہیں؟

 (سوال نمبر ١٤٩)


کیا وراثت میں بیٹیوں کا حصہ نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ بکر کو چار لڑکیاں اور تین لڑکے ہیں اور زمین تین کٹھا سات دھور چار کنوا  ہے بکر کے انتقال کے بعد انکے تینوں بیٹے اور چاروں بیٹوں نے زمین بٹوارا کرنا چاہا مگر کوئی کہتا ہے بیٹیوں کے حصے میں کوئی زمین نہیں دی جائے گی لیکن بیٹیاں بضد ہے کہ میں زمین لونگی اس میں میرا بھی حصہ ہے  اب مفتیان کرام کی بار گاہ میں عرض یہ ہے کہ  بیٹیوں کو زمین دی جائے گی یا نہیں اگر دی جائے گی تو اوپر جو بیان کیا گیا ہے اس میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے حصہ میں کتنی زمین ہوگی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں عین نوازش ہوگی
سائل:- محمد اسرافیل احمد قادری مدھوا نیپال ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.

 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
 
صورت مستفسره میں قدرے تفصیل یے وہ یہ کہ
میت چھوڑے ہوئے مال سے اس کی تجہیز و تکفین مناسب انداز میں کرنے کے بعد جو مال بچا ہو اس سے میت کے قرضے چکائے جائیں ۔ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے کیونکہ قرض فرض ہے جب کہ وصیت کرنا ایک نفلی کام ہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے قرض وصیت سے پہلے ادا کرایا۔ (ابن ماجہ، دارقطنی و بیہقی)
قرض سے مراد وہ قرض ہے جو بندوں کا ہو، اس کی ادائیگی وصیت پر مقد م ہے۔ اگر میت نے کچھ نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی یا روزوں کے فدیہ کی یا کفارہ کی یا حج بدل کی تو تمام چیزیں ادائیگی قرض کے بعد ایک تہائی مال سے ادا کی جائیں گی اور اگر بالغ ورثاء اجازت دیں تو تہائی سے زیادہ مال سے بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔
ادائیگی قرض کے بعد وصیت کا نمبر آتا ہے۔ قرض کے بعد جو مال بچا ہو اس کے تہائی سے وصیتیں پوری کی جائیں گی۔ ہاں اگر سب ورثہ بالغ ہوں اور سب کے سب تہائی مال سے زائد سے وصیت پوری کرنے کی اجازت دے دیں توجائز ہے۔
(بہار شریعت ح ٢٠ ص ٦/٧ دعوت اسلامی ۔)
اب اس کے بعد جو مال و جائداد بچے اس کی تقسیم مذکورہ مسئولہ میں اس طرح ہے  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔(النساء، 4: 11)
درج بالا آیت نے تقسیم کا اصولی فیصلہ یہ دیا ہے کہ ترکہ میں لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ ہے۔ مسئلہ مسؤلہ میں اگر ورثاء میں صرف تین  بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں تو کل قابلِ تقسیم زمین تین کٹھا سات دھور چار کنوا دس حصے بنا کر ہر لڑکے کو دو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔۔۔ زمین کی تقسیم جو اس فن کا ماہر ہو اس سے کروالیں ۔۔
اس کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ تین کٹھا سات دھور چار کنوا زمین کی موجودہ قیمت لگا کر پوری قیمت کو دس حصوں میں تقسیم کر کے ہر لڑکے کو دو دو اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصہ  دے سکتے ہیں ۔۔
اور جو کہتا ہے ترکہ میں بیٹیوں کا حصہ نہیں وہ صریح غلطی پر ہے اسے احکام شرعی بتایا جائے ۔
اگر پھر بھی نہ مانے تو اسے سماجی دبائو ڈالے ۔کہ یہ قرآن کا حکم اور قرانی تقسیم ہے کسی مسلمان کو اس سے منہ موڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔

والله ورسوله أعلم بالصواب۔


الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد رحمت علی امجدی ناسک
١٥/ صفر المظفر ١٤٤٢ھ
مطابق ٣/اکتوبر ٢٠٢٠ء
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
٣/١٠/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area