(سوال نمبر ١٥١)
کیا مدنی چینل دیکھنا یا کسی چینل کو مدنی چینل کہنا جائز نہیں ہے؟
::------------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع عظام اس مسلہ کے بارے میں کہ کسی بھی چینل کو مدنی کہنا یا پھر مدنی چینل کو مدنی کہنا کیسا ہے ؟ جب کہ کسی نے تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے سوال کیا مدنی چینل دیکھنا یا کسی چینل کو مدنی کہنا کیسا ہے؟ تو جواباً تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کسی بھی چینل کو مدنی کہنا یہ جائز نہیں ہے اب علمائے کرام سے طلب امر یہ ہے کہ کسی بھی چینل کو مدنی کہنا کیسا ہے
سائل:- محمد نسیم اختر جلیشور ضلع مہوتری نیپال
::------------
نحمدہ ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالیٰ عز وجل
صورت مستفسره میں
دعوت اسلامی چینل کو مدنی چینل کہنا بالکل درست ہے شرعا کوئی قباحت نہیں ۔کہ یہ نسبت مجازی ہے ۔مدینہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے محبت میں کہا جاتا ہے، وہ چینل جس کے بابت بالیقین علم ہو کہ اس پر کوئی غیر شرعی شیئ نشر نہیں کی جاتی بلکہ فقط شرعی پروگرام ہوں تو ایسے چینل کو مدنی شرعی چینل یا اسلامی چینل کہنے میں کوئی قباحت نہیں چونکہ ایسے چینلوں کا دارومدار ہر گھر میں اسلامی احکام پہنچانا مقصود ہوتا ہے اور جو چینل مذکورہ وصف سے خالی ہو اسے شرعی یا اسلامی یا مدنی چینل کہنا درست نہیں ۔جیساکہ حدیث پاک میں ہے عمل کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔اور مدنی چینل میں کوئی غیر شرعی امور نہیں ۔بلکہ موجودہ دور میں مفید تر ہے حضرت تاج الشریعہ رحمت اللہ علیہ کی تصویر کے بابت اپنی تحقیق ہیں ۔چونکہ تصویر کے حرمت کے سبب انہوں نے چینل کا نام مدنی چینل رکھنا درست نہ سمجا پر تصویر مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔اس لئے جن کے نزدیک تصویر یا اسلامی ویڈیوز دیکھنا جائز ہے ان کے نزدیک مدنی چینل نام رکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ۔
درس قرآن و درس حدیث اور علماء اہل سنت کی اسلامی بیانات بشکل ویڈیو دیکھنا بالکل جائز و درست ہے ۔حرام کہنے والے علماء کرام کے پاس ان کی اپنی دلیل ہے ۔تصویر یہ موجودہ دور میں میں اختلافی مسئلہ ہے ۔٩٨ فیصد علماء کرام کے نزدیک جائز و مباح ہے اور دو فیصد کے نزدیک حرام و گناہ ہے ۔
ہمیں جو سہل لگے اسے لے سکتے ہیں کسی پر سب و شتم اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ٹھہرانا درست نہیں ۔۔جو ایسا کرتے ہیں وہ درست نہیں ۔ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔کہ وہ تقوی کے عامل ہیں ابھی کچھ اور وقت گزرنے دیں سبھی جواز کے قائل ہو جائیں ۔۔ بحاجت ضرورت زمانہ ۔
ایک بات یاد رہے کسی بھی چیز کو حرام و حلال کرنا صرف شارع علیہ السلام کا کام ہے اور کسی کا یہ منصب نہیں ہے۔
بعض کم پڑھے لکھے لوگ اس مسئلہ میں بیجا شدت کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو درس قرآن، خطابات کی ویڈیو بنانا اس دور میں حرام نہیں بلکہ ضروری ہونی چاہئے ۔ تاکہ عامۃ الناس فحاشی کے چینلز دیکھنے کے بجائے دین کی چند باتیں سیکھ لیں۔ ڈرامے، فلمز کے بجائے، علما کے خطاب چلائیں، قرآن کی تلاوت ہو، نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔ اور اچھے اچھے معلوماتی پروگرامز ہوں، یہ اسلامی ویڈیو بنانا موجودہ دور میں اکثر برائی کے توڑ نے کے مترادف ہے۔ جیسا کے دعوت اسلامی مدنی چینل بنا کر امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ پوری دنیا میں فقط مدنی چینل اسلامی ہے جس میں کوئی شیئ غیر اسلامی نہیں ایسی صورت میں اس چینل کو روکنا اور غیر اسلامی کہنا درست نہیں اور حرمت کا فتویٰ لگا کر شدت پر اتر جا نا جائز نہیں موجودہ دور میں اسلامی ویڈیوز بنانے کو غیر اسلامی کہنا درست نہیں ہونی چاہئے ۔ایسا کہنے والے کو موجودہ دور میں اس مسئلہ پر غور و خوض کرنا چاہئے مدنی چینل موجودہ دور میں تبلیغ اسلام کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کو روکنے والے اور روکنے والے کا سپورٹ کرنے والے فحاشی کے پھیلنے اور پھیلانے والوں کا ساتھ دے نے کے مترادف ہیں ۔ کہ درس القرآن کی ویڈیو نہ بنائیں اور مدنی چینل نہ دیکھیں ایسی صورت میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ڈرامے اور فلمیں دیکھیں گے ۔ ایسے لوگوں کی عقلوں، فہم وفراست اور تدبر پر مجھے تعجب ہے۔ جو اکیسویں صدی میں رہ کر دین اسلام کی تبلیغ کو نہ پہچان سکیں
صحیح بخاری شریف میں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔۔
أنَّهَا كَانَتِ اتَّخَذَتْ علَى سَهْوَةٍ لَهَا سِتْرًا فيه تَمَاثِيلُ، فَهَتَكَهُ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَاتَّخَذَتْ منه نُمْرُقَتَيْنِ، فَكَانَتَا في البَيْتِ يَجْلِسُ عليهمَا.
(المصدر : صحيح البخاري.الرقم: 2479.)
اس حدیث پاک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔۔
کہ انہوں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیا۔ اس سے میں نے دو گدے بنا لیے۔ آگے فرماتی ہیں:
دونو گدے گھر میں تھے، انپر سرکارِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے۔
اب اگر مطلقاً ہر تصویر حرام ہوتی تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ان گدوں پر نہ بیٹھتے ، اور فرماتے کہ اس کو ختم کر دو۔ مگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ سرکار دوعالم علیہ الصلوٰۃ والسلام ان گدوں پر بیٹھا کرتے تھے۔
پہلی صورت میں نماز یا جگہ پر تصاویر تھیں اور دوسری یہ کہ کپڑے سے دیوار کا حصہ بھی چھپ گیا تھا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے،
حدیث کے الفاظ یہ ہیں"
إن اللهَ لم يأمرنا أن نكسوَ الحجارةَ والطينَ ،۔ (الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم)الصفحة أو الرقم: 2107 خلاصة حكم المحدث : [صحيح)
یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم نہیں دیا کہ پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہنائیں تو اس سے سمجھا گیا کہ وہ پردہ دیوار کو ڈھک رہا تھا اور یہی ناراضگی کی وجہ بنی تھی اور تصویریں بھی فقہاء کرام نے تصویر کی حرمت یوں بیان کی ہے۔کہ فقط ملائکہ رحمت و ملائکہ استغفار یا وحی لانے والے فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے باقی کراما کاتبین یا دیگر فرشتے تو وہ داخل ہوتے ہیں ۔ جس گھر میں وہ کتا یا تصویر ہو جسے رکھنا حرام ہے۔ رہا وہ جس کا رکھنا حرام نہیں مثلا شکاری کتا ، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والا کتا اور جو تصویر قالین اور تکیہ وغیرہ پر روندھی جاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں، ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں.
والله ورسوله أعلم بالصواب.
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨،خادم. البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپال
:--------
زیر سرپرستی
قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی جنکپور ۔سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔
٦/١٠/٢٠٢٠