(سوال نمبر ١٥٢)
بیوی سسرال میں اپنی بہن کے گھر جانے کے لئے اپنی ماں سے اذن لے یا شوہر سے
:----------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ.
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ خالدہ اور ہندہ دونوں سگی بہنیں ھیں اور دونوں شادی شدہ ہیں بکر ان دونوں کے رشتہ دار ھیں بکر کے لڑکے کی شادی ہے خالدہ کو بکر سے کوئی ذاتی دشمنی ھے جس کی بنا پر بکر نے خالدہ کو دعوت میں نہیں بلایا اور ہندہ کو بلایا اب خالدہ اپنی بہن ھندہ کو بکر کے یہاں شادی میں جانے سے روک رھی ھے یہاں تک کہ خالدہ اپنے ماں باپ کے ذریعے بھی ھندہ کو روک رھی ھے جبکہ ھندہ کے ماں باپ کو بکر سے کوئی بھی قسم کی دشمنی نہیں ھے اب خالدہ کے کہنے پر ان کے والدین بھی ھندہ کو جانے سے منع کر رہے ہیں.پوچھنا یہ ھے کہ ھندہ اپنے ماں باپ کا کہنا مانے یا پھر شادی میں جائے؟
سائل:-محمد علاؤالدین رضوی اتر دیناجپور مغربی بنگال...
:---------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل
صورت مستفسره میں
شادی کے بعد زوجہ کو بدون اذن زوج اپنے گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے بدون اذن زوج نکلنے والی زوجہ کے بابت حدیث پاک میں وعید وارد ہے ۔حدیث میں ہے ایک عورت آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے تو آقا علیہ السلام نے فرما یا شوہر کا بیوی پر یہ حق ہے کہ شوہر کے اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے اگر نکلے گی تو آسمان کے فرشتے اور رحمت و عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ واپس گھر آجائے صورت مستفسرہ میں اپنی بہن کے گھر جانے کے لئے شوہر سے اذن لے، اگر دے دے فبہا بدون اذن شوہر بہن حتی میکے جا نا جائز نہیں واضح رہے کہ اجازت ملنے پر بھی شوہر کے بتائے ہوئے دن سے زائد رکنا جائز نہیں اگر رکی نافرمان ہوگی البتہ شوہر کی ذمہداری ہے کہ ہفتے میں ایک بار میکے اور سال میں ایک بار اس کے محارم سے ملنے کی اذن ضرور دے ۔
اس کی کئی صورتیں ہیں ۔یا شوہر خود لےکر جائے یا محارم کے ساتھ بھیج دے یا ساس سسر کو بلوالے ۔
آقا علیہ السلام نے فرما یا تم میں سے وہ اچھا ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو
اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے سب سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والا ہوں ۔
حديث پاک میں ہے
انَّ امرأةً من خثعَمَ أتت رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقالت يا رسولَ اللهِ ! أخبِرْني ما حقُّ الزَّوجِ على الزَّوجةِ فإنِّي امرأةٌ أيِّمٌ فإن استطعتُ وإلَّا جلستُ أيِّمًا قال فإنَّ حقَّ الزَّوجِ على زوجتِه إن سألها نفسَها وهي على ظهرِ قتَبٍ أن لا تمنعَه نفسَها ومن حقِّ الزَّوجِ على الزَّوجةِ أن لا تصومَ تطوُّعًا إلَّا بإذنِه فإن فعلت جاعت وعطِشت ولا يُقبلُ منها ولا تخرُجُ من بيتِها إلَّا بإذنِه فإن فعلت لعنتها ملائكةُ السَّماءِ وملائكةُ الرَّحمةِ وملائكةُ العذابِ حتَّى ترجعَ قالت لا جرَمَ ولا أتزوَّجُ أبدًا
الراوي : عبدالله بن عباس.المحدث : المنذري.
المصدر : الترغيب والترهيب.الصفحة أو الرقم: 3/102.خلاصة حكمالمحدث : [لا يتطرق إليه احتمال التحسين].التخريج: أخرجه أبو يعلى في ((المسند)) (4/340)، وابن أبي الدنيا في ((النفقة على العيال)) (2/715)، وفي ((مداراة الناس)) (ص: 146)
كما في الدر المختار
و ليس لها أن تخرج بلا إذنه أصلا۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 1428/4257
والله ورسوله أعلم بالصواب.
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم ،البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔
زیر سرپرستی:-
قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی جنکپور ۔۔
٥/١٠/٢٠٢٠