Type Here to Get Search Results !

کیا مدرسہ یا مسجد کی جگہ جو وقف کر دی گئی ہو بطور وراثت تقسیم ہو سکتی ہے؟

 سوال نمبر 4055)
کیا مدرسہ یا مسجد کی جگہ جو وقف کر دی گئی ہو بطور وراثت تقسیم ہو سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتےہیں مفتیان کرام اس مسلہ کے بارے میں کے زید نے 20مرلے کا پلاٹ خریدا مدرسے کے لئے لوگوں کے تعاون سے یعنی صدقہ وخیرات وزکوٰۃ و عشر وغیرہ اور رجسٹری بھی زید کے نام پہ ہے تو کیا کوئی نجی ادارہ یا کوئی اوقاف کا ادارہ اس پلاٹ کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ ہماری وراثت ہےاور کیا مدرسے یا مسجد کی جگہ جو وقف کر دی گئی ہو وہ بطور وراثت تقیسم ہو سکتی یا زید اپنے کسی وارث کے نام کر سکتا ہے اور یہ نام کرنا کیا وراثت تقسیم کرنا نہیں اس کے بارے میں روشنی ڈالے قرآن و حدیث سے
بینواوتوجروا
سائل:- محمد عبداللہ کامونکی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
زید نے جو لوگوں کے دئے ہوے صدقہ نافلہ و واجبہ سے مدرسہ کے لیے زمین خریدا اسے محلے کے اہم 5 لوگوں کے نام وقف شدہ ملکیت کو تمام اہل محلہ کے لیے اس طرح رجسٹر کروانا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی فتنہ و فساد نہ ہو کوئی نجی ادارہ اس وقف شدہ مدرسہ مسجد کی زمین کا دعویٰ نہیں کر سکتی ہے کہ ہماری وراثت ہے چونکہ وقف شدہ املاک میں کوئئ ہبہ بیع و شراء اور وراثت نہیں وہ وقف تام کے بعد خدا کی ملکیت ہوجاتی ہے ۔خود یا وہ جسے چاہے متقی با شرع کے نام بطور نگراں کر سکتے ہیں ۔
یعنی جب وہ زمین مدرسہ کے لیے خریدی گئی تو وہ زمین وقف ہی ریے گی اور قیامت تک اس کے وقف کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو مالک بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے بطور رہن رکھوانا، تحفہ میں دینا یا فروخت کرنا جائز ہے،
 مذکورہ شخص کا مدرسہ کی زمین کو اپنے نام کرواکر مالک بننے کا دعوی کرنا اور اس زمین پر قبضہ کرنا قطعاََ ناجائز اور حرام ہے اور اس سے اس زمین کا وقف ختم نہیں ہوگا۔
پس مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ مدرسہ کی زمین مدرسہ کے نام کردے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا، اور اس زمین سے حرام فائدہ اٹھانے والا شمار ہوگا۔ البتہ بطور نگراں اپنے نام کر سکتے ہیں الدر المختار مع رد المحتار: میں ہے 
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر 
(الدر المختار مع رد المحتار: (351/4، ط: دار الفکر)
الھندیۃ میں ہے 
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية۔ (الھندیۃ: (350/2، ط: دار الفکر)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے جائداد ملک ہوکر وقف ہوسکتی ہے مگر وقف ٹھہر کر کبھی ملک نہیں ہوسکتی (ج ۶ ص۳۳۵)
اسی میں ہے مسلمانوں پر فرض ہے کہ حتی المقدور ہر جائز کوشش حفظ مال وقف و دفع ظلم ظالم میں صرف کریں اور اس میں جتنا وقت یا مال ان کا خرچ ہوگا یا جو کچھ محنت کریں گے مستحق اجر ہوں گے قال تعالی لا یصیبھم ظمأ ولا نصب ولا مخمصة الى قوله تعالى الا كتب لهم به عمل صالح (نفس مصدرص۳۵۰)
اسی میں ہے 
وقف کی تبدیل جائز نہیں جو چیز جس مقصد کے لیے وقف ہے، اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لیے کر دینا روا نہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے، یونہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کر دیناحلال نہیں۔ سراج وہاج پھر فتاوی ہندیہ میں ہے
لا یجوز تغیر الوقف عن ھیأتہ فلا یجعل بستاناً و لا الخان حماماً و لا الرباط دکاناً إلا إذا جعل الواقف إلی الناظر ما یری فیہ مصلحۃ الوقف اھ۔وقف کو اس کی ہیئت سے تبدیل کرنا ،جائز نہیں،لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا اور رباط کا دکان بنانا، جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کر سکتا ہے جس میں وقف کی مصلحت ہو، تو جائز ہے، اھ۔قلت: جب ہیئت کی تبدیلی جائز نہیں، تو اصل مقصود کی تغییر کیونکر جائز ہو گی
(فتاوی رضویہ، ج ٩ ،ص ٤٥٧،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسی میں ہے مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے ۔ وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خاص ہے، اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، ج ١٦،ص ٢٣١ /٢٣٢،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے
وقف کا حکم یہ ہے کہ نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیع کرسکتا ہے نہ عاریت دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے(ج ۲ ح ۱۰ ص ۵۳۳ /مكتبة المدينه )
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادري لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔16/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area