Type Here to Get Search Results !

ہندہ نے زید کے ساتھ نکاح کیا 4 اولاد کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں رضائی بھائی بہن ہیں؟

 (سوال نمبر 4056)
ہندہ نے زید کے ساتھ نکاح کیا 4 اولاد کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں رضائی بھائی بہن ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسلہ میں
زید کی شادی اس کے چچا کی بیٹی سے ہوئی اور اس کو چار اولاد بھی ہوئی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو اس کی رضائی بہن ہے تو اب زید کیا کریے؟ 
 شرعی حکم کیا ہے جواب عنایت فرمائیں۔.
سائل:- محمد کاشف ساج جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
رضاعت کے شرعی کچھ اصول ہے ۔زید نے جو غلطی سے اپنی رضاعی بہن سے شادی کرلی اس کیسے پتا کہ اس کی بیوی رضاعی بہن ہے؟ ظاہر ہے والدین یا ساس سسر یا اور کوئی بتائے ہوں گے تو رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد ، یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یا دو عورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔
لہذا فردا کسی ایک کا کہنا رضاعت کے باب میں قبول نہیں ہے کہ کوئی ایک کہدے کہ آپ کی بیوی آپ کی رضاعی بہن ہے اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں یا صرف شوہر اس رضاعت کی تصدیق کرتاہو بالیقین شرعی شواہد سے پھر اس صورت میں میاں بیوی کے مابین جدائی لازم ہے۔
العنایہ میں ہے 
ولاتقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين) وقال مالك رحمه الله: تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفةً بالعدالة؛ لأن الحرمة حق من حقوق الشرع؛ فتثبت بخبر الواحد، كمن اشترى لحمًا فأخبره واحد أنه ذبيحة المجوسي. ولنا أن ثبوت الحرمة لايقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لايثبت إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين، بخلاف اللحم؛ لأن حرمة التناول تنفك عن زوال الملك فاعتبر أمرًا دينيًّا، والله أعلم بالصواب". (5/158)
المبسوط للسرخسی میں ہے 
(قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا۔ ( المبسوط للسرخسی3/681)
واضح رہے کہ جب بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور وہ بچہ اس عورت کی رضاعی اولاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب نسبی ماں اور اولاد کی طرح ان کے رشتے بھی منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح خونی رشتوں میں قائم ہوتی ہے۔
صورتِ مسئلہ کے مطابق اگر  دونوں میں سے کسی ایک نے واقعی مدتِ رضاعت میں دودھ پیا تھا اور جوان ہونے کے بعد یعنی اپنی رضاعی بہن سے نکاح کیا تو یہ نکاح سرے سے قائم ہی نہیں ہوا کیونکہ قرآن وحدیث کے مطابق رضاعی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر انہوں نے غلطی سے ایسا کیا ہے تو معلوم ہو جانے کے بعد انہیں فوراً الگ ہو جانا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر جان بوجھ کر نکاح کیا ہے تو بذریعہ شرعی   عدالت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے اُن کو الگ کیا جائے
اگر ماں کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلائے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ دودھ پینے والا بچہ اس عورت کی حقیقی اولاد کی طرح، اس کے اصول وفروع پر حرام ہو جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نسب کی طرح رشتہ رضاعت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے کیونکہ رضاعی رشتوں کو بھی وہی تقدس دیا گیا ہے جو نسبی رشتوں کا ہے۔ جس طرح نسبی رشتوں سے نکاح جائز نہیں اسی طرح رضاعی رشتے بھی نکاح کے لیے حرام ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ.
اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (تم پر حرام ہیں)۔(النساء، 4: 23)
ایک حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ ابن عباس علیہما السلام سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.
رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
(البخاري، الصحيح، كتاب الشهادات، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم، 2: 935، الرقم: 2502، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)
حضرت عائشہ صدیقہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے ایک آواز سنی، کوئی شخص حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آنا چاہتا تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض كيا: یا رسول اللہ! یہ شخص آپ کے حجرے میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ کا رضاعی (دودھ شریک) چچا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض كيا: یا رسول اللہ! اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو میرا رضاعی چچا تھا تو کیا وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ.
ہاں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
(مسلم، الصحيح، كتاب الرضاع، باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة، 2: 1068، الرقم: 1444، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
فتح القدیر میں ہے 
وَالْوَاجِبُ عَلَى النِّسَاءِ أَنْ لَا يُرْضِعْنَ كُلَّ صَبِيٍّ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ، وَإِذَا أَرْضَعْنَ فَلْيَحْفَظْنَ ذَلِكَ وَيُشْهِرْنَهُ وَيَكْتُبْنَهُ احْتِيَاطًا.
ضروری ہے کہ عورتیں ضرورت کے بغیر ہر بچے کو دودھ نہ پلائیں جب وہ دودھ پلائیں تو اس امر کو یاد رکھیں اس کو مشہور کریں اور بطور احتیاط اسے لکھ لیں۔
(فتح القدير، 3: 439، بيروت: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے 
يُحَرَّمُ عَلَى الرَّضِيعِ أَبَوَاهُ مِنْ الرَّضَاعِ وَأُصُولُهُمَا وَفُرُوعُهُمَا مِنْ النَّسَبِ وَالرَّضَاعِ جَمِيعًا.
دودھ پینے والے بچے پر رضاعی ماں باپ اور ان کے اصول وفروع نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہو جاتے ہیں۔(الفتاوى الهندية، كتاب الرضاع، 1: 343، بيروت: دار الفكر)
والله و رسوله أعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔٢٠/٤/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area