Type Here to Get Search Results !

کیا حالت نماز میں آیت سجدہ پڑھنے سے اسی وقت سجدہ کرنا ضروری ہے؟

(سوال نمبر ١٧٩)

کیا حالت نماز میں آیت سجدہ پڑھنے سے اسی وقت سجدہ کرنا ضروری ہے؟

:-----------------------------------------:

السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دوران نماز آیت سجدہ پڑھی اور رکوع کیا. پھر سجدہ کیا تو آیت سجدہ کے لیے یہ سجدہ کافی ہوگا یہ نہیں؟مدلل جواب مطلوب ہے عین نوازش ہو گی .

سائل:-محمد وارث رضا القادری کوٹہ راجستھان انڈیا ۔

:-----------------------------------------:

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين 

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 

صورت مسئولہ میں

اگر کسی نے نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کی تو آیت کے ختم ہونے کے بعد فورا سجدہ تلاوت کر نا واجب ہے اگر فورا سجدہ تلاوت نہیں کیا بلکہ تین آیت کی مقدار تاخیر کی تو گنہگار ہو گا،اس کی دو صورتیں ہیں اگر تین آیت پڑھ کر یا اس سے پہلے رکوع کرلیا تو اس رکعت کے سجدہ صلاتیہ میں ہی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا پر شرط یہ ہے کہ رکوع میں امام و ماموم سجدہ تلاوت کی نیت کی ہو، بدون نیت کافی نہیں ۔

جیسا کہ در مختار میں ہے، 

وتوٴدی برکوع صلاة إذا کان الرکوع علی الفور من قرأة آیة أو آیتین …إن نواہ أي: کون الرکوع لسجود التلاوة علی الراجح، وتوٴدی بسجودھا کذلک علی الفور وإن لم ینو بالإجماع، ولو نواھا في رکوعہ ولم ینوہ الموٴتم لم تجزہ ویسجد إذا سلم الإمام ویعید القعدة ولو ترکھا فسدت صلاتہ کذا في القنیة،(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ۲: ۵۸۶، ۵۸۷، )

اور اگر سجدہ تلاوت کے بعد تین آیات سے زیادہ تلاوت کرلی تو یاد آتے ہی دوران نماز ہی سجدہ تلاوت کرنا ضروری ہے حتی کہ اگر سلام بھی پھیر لیا ہو پر منافی نماز افعال میں سے کوئی عمل نہ کیا ہو تو یاد آتے ہی سجدہ کر لینی چاہئے اور اگر نماز ختم ہونے کے بعد منافی نماز کام کرلیا تو اس کی قضا نہیں، کیوں کہ نماز میں واجب ہونے والے سجدہ کی قضا اسی نماز کی جا سکتی ہے اب نماز مکمل ہونے کے بعد قضا کا وقت باقی نہیں، لہذا مذکورہ صورت کے اعتبار سے سجدہ تلاوت کئے جا سکتے ہیں ۔نہ کرنے پر اللہ سبحانہ و تعالی سے توبہ استغفار کرنی چاہئے ۔

کما فی الدر المختار مع رد المحتار' 

و يأثم بتأخيرها و يقضيها مادام في حرمة الصلاة، ولو بعد السلام''.و في الرد: (ويأثم بتأخيرها ...الخ)؛ لأنها وجبت بما هو من أفعال الصلاة، وهو القراءة و صارت من أجزائها، فوجب أدائها مضيقاً''. (شامي، كتاب الصلوة، باب سجود التلاوة، )

جيسا کہ مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

آیت سجدہ کہ نماز میں تلاوت کی جائے سجدہ فورا واجب ہے، اگر تین آیت کی تاخیر کی گنہ گار ہوگا، پھر اگر عمدا سجدہ نہ کیا نہ معارکوع کیا کہ سجدہ تلاوت رکوع سے ادا ہوجاتا تو اس کی اصلاح سجدہ سہو سے نہیں ہوسکتی کہ وہ سجدہ سہو ہے کہ نہ سجدہ عمد، اور اگر سجدہ تلاوت کرنا بھول گیا اور حرمت نماز سے باہر نکل گیا تو اب بھی سجدہ سہو ہوسکتا کہ حرمت سے خروج جیسا کہ مانع سجدہ تلاوت ہے یوں ہی مانع سجدہ سہو، ہاں اگر حرمت نماز میں باقی ہے کلام نہ کیا اٹھ کر چلانہ گیا اور یاد آیا تو سجدہ تلاوت نماز میں کیا مگر سہوا بتاخیر مثلا دوسری رکعت میں یاد آیا کہ سجدہ تلاوت چاہئے تھا اور اب ادا کیا جب بھی سجدہ سہو کا حکم ہے اگر چہ سجدہ تلاوت نماز میں ادا ہو گیا،

درمختار میں ہے:

ھی علی التراخی ان لم تکن صلویۃ فعلی الفور لصیر ورتھا جزأ منھا ویاثم بتاخیرھا ویقضیھا مادامہ فی حرمۃ الصلوۃ ولوبعد السلام، (فتح)

سجدہ تلاوت لازم ہوتا ہے تراخی کے طور بشرطیکہ سجدہ مذکورہ نماز میں لازم نہ ہوا کیونکہ اگر نماز میں لازم ہوا تو فی الفور نماز کے اندر کرنا ہی ضروری ہے کیونکہ اب وہ نماز کی جز بن گیا ہے لہذااس کی تاخیر سے گنہ گار ہوگا اور اس کی قضا بجالا سکتا ہے جب تک وہ حرمت نماز کے اندر ہے اگر چہ سلام کے بعد ہو، (فتح۔ت)

( درمختار باب سجود التلاوۃ مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۵)

ردالمحتار میں ہے

قولہ ولو بعد السلام ای ناسیا مادام فی المسجد.

قولہ سلام کے بعد الخ یعنی بھول جانے والا شخص جب تک مسجد میں ہے سجدہ ادا کر سکتا ہے ۔(فتاوی رضویہ ج ١٠ ص ١٣٩)

والله ورسوله أعلم بالصواب 

کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨،ضلع سرها نیپال ۔

 خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔ 

١٧،ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ٣،نوفمبر ۲۰۲۰ عیسوی، يوم الاثنين 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔

(١) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔

(٣) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور 

 المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔

 ٣،نوفمبر ٢٠٢٠ء / ١٧،،ربيع الأثانی  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area