(سوال نمبر ١٧٦)
غیر مسلم میت کو جلانے میں شامل ہونا اور اس کے مرن کی دعوت کھانا کیسا ہے؟
:-----------------------------------------:
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک گاؤں میں کچھ مسلمان ہے جو نماز ی بھی ہے اور جب کوئی غیر مسلم مر جاتا ہے تو اس کو لکڑی دینے بھی جاتا ہے اور اس کے مرن کی دعوت بھی کھا تا ہے۔ان لوگوں کے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جو اب عنایت فرمائیں عین نوازش و کرم ہوگی۔۔۔
سائل:- محمد نوشاد احمد قادری روپیھٹا۔نیپال ۔
:-----------------------------------------:
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مسئولہ میں غیر مسلم مردے کو شمشان گھاٹ لے جانا یا اس کے جلانے میں مدد کرنا شرعا بالکل جائز نہیں، کہ اس میں لاش انسان کی توہین ہے اور عظمت انسان کی وجہ سے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ یہ غیر مسلم کے مردے کے بابت مذہبی رسم ہے اور ایسے موقع پر سفید لباس پہنے جاتے ہیں اور کفریہ نعرے بھی لگائے جاتے ہیں ممکن ہے مردے کے حق میں کوئی کلمہ خیر نکل جانے جو موجب کفر اور شرعا قابل گرفت ہو اس لئے حتی الامکان جانے سے اجتناب کیا جائے کہ جانا خطرہ سے خالی نہیں ۔
مسلمانوں کو ایسے عمل سے اجتناب لازم ہے ۔
البتہ اگر گائوں میں کم مسلم ہو تو دفع ضرر کی وجہ جاسکتے ہیں، اس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی غیر شرعی کلمہ اپنی زبان سے نہ نکالے اور ناہی سفید لباس پہنے ۔ جب یہ خدشہ ہو کہ اگر نہیں جائے گا تو غیر مسلم مسلمانوں کی عزت جان و مال کو نقصان پہنچائیں گے۔ اور اگر ایسا نہیں تو جانا جائز نہیں ۔
کما فی الفتاوی الہندیہ
وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديدالنكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۲؍۲۸۳، کتاب السیر، الباب العاشر في البغاۃ)
اگر اس مرن کی دعوت میں یقین ہے کہ کوئی غیر شرعی چیز کھانے میں استعمال نہیں کر تا ہے تو سادہ کھانا کھانے میں حرج نہیں ۔
اور اگر معلوم نہیں تو بھی کراہت سے خالی نہیں پر حرام نہیں ہے ۔اور اگر معلوم ہو کہ کھانا میں نجس جیز استعمال کر تا ہے تو مرن کی دعوت کھانا بالکل جائز نہیں ۔بہر حال اجتناب اولی ہے ۔۔
شیخ الاسلام علامہ البرهاني فرماتے ہیں
وأما الآدمي فقد قال بعض مشايخنا: إنه لم يجز الانتفاع بأجزائه لنجاسته، وقال بعضهم: لم يجز الانتفاع به؛لکرامته وهو الصحيح، فإن الله تعالى كرم بني آدم وفضلهم على سائر الأشياء، وفي الانتفاع بأجزائه نوع إهانة به. (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 373):
کما فی الفتاوى الهندية ’قال محمد - رحمه الله تعالى ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولا يكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً.. (الفتاوی الہندیہ ٥/٣٤٧)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔ ٣١/١٠/٢٠٢٠