(سوال نمبر 134)
کیا بچہ کافر کے گھر میں پیدا ہونے سے کافر بنتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے اہلسنت کی بارگاہ میں میرا ایک سوال ہے اور یہ سوال ہم سے کافر نے کیا ہے کے بچہ جب پیدا ہوتا ہے مسلمان بن کر پیدا ہوتاہے کیوں کہ اللہ تعالی کو معلوم ہے کافر کےلئے جہنم بنائی گئ اور کافر کو مرنے کہ بعد جہنم میں ڈالوں گا پھر اللہ تعالی کو معلوم ہے یہ بچہ مسلمان ہے پھر کافر گھر میں اس بچے کو پیدا کرکے بچہ پہ ظلم کرتاہے اور کافر گھر میں پیدا کرتاہے جب کہ كہتا ہیں. اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا یہ جو کرتاہے یہ ظلم نہیں تو کیا ہیں؟
علمائے اہلسنت شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے ۔
سائل:- فقیر عبدالرحیم برکاتی مقام پرڑیا ضلع مہوتری نیپال۔
فقط و سلام خدا حافظ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل.
صورت مستفسره میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: کہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے“ میں ”فطرت“ سے مراد: ”دین اسلام کو قبول کرنے کی استعداد اس میں کاملا موجود ہے“ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: دنیا کا انسان جب اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو اس کی خلقت میں، اور پیدائش میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ”اسلام“ اس کی زندگی کا راستہ بنے۔ اور وہ اس راہ کو اختیار نہ کرے جو اس کے مقصد تخلیق، یعنی روئے زمین پر خالق کائنات کی عبودیت و بندگی، اور آخرت کے ابدی نجات کو اس سے دور کردینے والی ہو،
روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں جیسے جانور بے عیب بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا پاتے ہو پھر فرماتے تھے کہ اﷲ کی پیدائش ہے جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا اللہ کی خلق میں تبدیلی نہیں یہ ہی سیدھا دین ہے۔(مسلم وبخاری)
پہلے ہم فطرت کو سمجھتے ہیں
فطرت کے لفظی معنی ہیں چیرنا اور ایجادکرنا،یہاں اصلی اور پیدائشی حالت مراد ہے یعنی ہر انسان ایمان پر پیدا ہوتا ہے،عالم ارواح میں رب تعالٰی نے تمام روحوں سے اپنی ربوبیت کا اقرار کرایا سب نے بَلٰی کہہ کر اقرار کیا اس اقرار پر قائم رہتے ہوئے دنیا میں آئے یہ اقرار و ایمان سب کا فطری اور پیدائشی دین ہے۔
بچہ ہوش سنبھالنے تک دین فطرت،توحید و ایمان پر قائم رہتا ہے ہوش سنبھالنے پر جیسا اپنے ماں باپ اور ساتھیوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے،پر اگر وہ نہ چاہے اور دین اسلام کو اپنا نا چاہے تو وہ اپنا سکتا ہے اور وہ آزاد ہے اور ہوش سنبھالنے کے بعد والدین کا اس پر کچھ اثر نہ ہو گا کیونکہ وہ ہوش مند ہے اب جان بوجھ کر کہ والدین کا دین غلط ہے پھر بھی اسی پر قائم رہنا یہ اس کی غلطی ہے، جیسے خود کافر یا کافر کے گھر کے افراد اپنے والدین کے دین میں تدبر تفکر کرکے داخل اسلام ہوجا تا ہے ۔اسی لئے اللہ ظالم نہیں بلکہ عادل ہے اب ہوش کے بعد بھی ایمان نہ لائے تب تو جھنم کے لئے ہی ٹھہرا ۔البتہ اعتراض اس وقت ممکن ہے جب اللہ تعالی اس بجے سے صلاحیت ایمان بھی ختم کر دیتا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اگر سن شعور سے قبل وفات پاجائے تو وہ جنت میں جائے گا اور یہی وجہ ہے مسلمان بچہ پر حد بلوغ سے قبل عبادات فرض نہیں ہے ۔
مشکاة شریف میں حدیث موجود ہے: عن أبي ہریرة قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”ما من مولود إلا یولد علی الفطرة؛ فأبواہ یہوّدوانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ․․․ (مشکاة المصابیح: ص:۲۱) نیز کافروں کے نابالغ بچے ایک قول کے مطابق جنت میں جنتیوں کے خادم ہوں گے: ”وقیل: إنہم خدّام أہل الجنّة (مرقاة: ۱/۱۶۶) تاہم کافروں کے نابالغ بچوں کے متعلق تعارضِ دلائل کی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے توقف کو اختیار کیا ہے، فنقل عن أبي حنیفة رحمہ اللہ في أولاد المشرکین التوقف (مرقاة: ۱/۱۶۷)
قانون یہ ہے کہ ہر انسان ایمان اور عقیدہ توحید پر پیدا ہو،یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بچہ میثاق کے اقرار کو توڑ کر کافر ہو کر پیدا ہو لہذا آیت پر کوئی اعتراض نہیں۔خیال رہے کہ وہ میثاقی ایمان شرعًا معتبر نہیں۔اسی لیے کافر کا بچہ کافر مانا جاتا ہے کہ نہ اس کی نماز جنازہ ہو نہ اسلامی کفن و دفن اور نہ اسے بعد میں مرتد کہا جائے جس بچہ کو خضرعلیہ السلام نے قتل کیا اور فرمایا"اِنَّہ طُبعَ کَافِرًا"وہاں مراد ہے"قُدِّرَوَجُبِلَ"یعنی ہوش سنبھال کر کافر ہونا اس کے مقدر میں آچکا ہے۔ (المرأة حديث ٨٨ )
حدثنا محمد بن يحيى القطعي البصري، حدثنا عبد العزيز بن ربيعة البناني، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل مولود يولد على الملة فابواه يهودانه او ينصرانه او يشركانه "، قيل: يا رسول الله، فمن هلك قبل ذلك؟ قال: " الله اعلم بما كانوا عاملين به ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مر جائے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 92 (1383)، والقدر 3 (6592)، صحیح مسلم/القدر 6 (2658)، سنن ابی داود/ السنة 18 (4714) (تحفة الأشراف: 12476)، و موطا امام مالک/الجنائز 16 (52)، و مسند احمد (2/244، 253، 259، 268، 315، 347، 393، 471، 488، 518) (صحیح)»
فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ « ألست بربكم » کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہا تھا تو اس وقت سب نے اس عہد اور اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آ کر یہودی، نصرانی اور مشرک بن جاتا ہے۔
اب اس میں اس بچے کی غلطی ہے کہ اس اپنے دماغ استعمال نہیں کیا ۔
اس لئے اللہ سبحانہ و تعالی پر عدل کے باب میں کوئی اعتراض رواں نہیں، اور قرآن کہتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔اور ریا کافر کے گھر پیدا ہونا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مجبور محض نہیں بلکہ وہ بالغ ہونے کے بعد اپنے دین کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے ۔
والله ورسوله أعلم بالصواب۔
كتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨.خادم ،البرقي دارالافتاء، سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔
٢٣/٩/٢٠٢٠