(سوال نمبر 6015)
شرائط جمعہ کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کے دور میں کسی جگہ جمعہ قائم کرنے کے لئے کیا کیا شرائط ہونی ضروری ہیں ۔کیوں کہ جو جمعہ کی شرائط ہیں ان میں سے کجھ تو اسلامی حکومت کے اعتبار سے ہیں۔جن کا پورا ہونا مشکل ہے۔
تو آج کہی جمعہ قائم کرنے کے لئے کیا ہونا ضروری ہے۔
سائل:- محمد کاشف پتہ جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
بادشاہ اسلام کی جگہ اس شہر کے عالم کافی ہیں۔
جمعہ پڑھنے کے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو جمعہ ہوگا ہی نہیں
(1) مصر یا فنائے مصر
(2) سلطاں اسلام یا اس کا نائب
شرائط جمعہ کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کے دور میں کسی جگہ جمعہ قائم کرنے کے لئے کیا کیا شرائط ہونی ضروری ہیں ۔کیوں کہ جو جمعہ کی شرائط ہیں ان میں سے کجھ تو اسلامی حکومت کے اعتبار سے ہیں۔جن کا پورا ہونا مشکل ہے۔
تو آج کہی جمعہ قائم کرنے کے لئے کیا ہونا ضروری ہے۔
سائل:- محمد کاشف پتہ جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
بادشاہ اسلام کی جگہ اس شہر کے عالم کافی ہیں۔
جمعہ پڑھنے کے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو جمعہ ہوگا ہی نہیں
(1) مصر یا فنائے مصر
(2) سلطاں اسلام یا اس کا نائب
(3) وقت ظہر
(4) خطبہ
(4) خطبہ
(5) جماعت یعنی امام کے علاوہ کم از کم 3 مرد
(6) اذن عام (بہار شریعت ح ١ج ١)
شہر یا شہر کے قائم مقام بڑے گاؤں یا قصبہ میں ہونا یعنی وہ جگہ جہاں متعدد کوچے اور بازار ہوں اوروہ ضلع یا پرگنہ ہو اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
فأما إذا لم يكن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس أن يجمع الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 261)
حدیث شریف میں ہے:
لا جمعة و لا تشريق إلا في مصر (درایہ ص ١٣١)
ہدایہ میں ہے
لا تجوز فی القری” (ج 1 ص 148)
دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں
در مختار میں ہے
تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ”
دیہات میں جمعہ کی نماز مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر صحیح عمل میں مشغول ہونا ہے، اس لیے کہ صحت جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے.
فتاوی فیض الرسول میں ہے:
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کریں گے کہ شاید اس طرح اللہ و رسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جائے گا”اسی صفحہ پر ہے
دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے، ھکذا قال الامام احمد رضا،(ص 406 ج1)
بہار شریعت میں ہے:ط
لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں (ج 1ص 763)
مذکورہ نصوص سے ثابت ہوا کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا ناجائز ہے، لیکن چوں کہ عوام نے قائم کرلی ہے اس لیے اب اسے روکا بھی نہیں جائے گا.
قرآن کریم میں ہے
أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (علق : 10/9)
دوسری جگہ ارشاد ہے
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا (البقرہ: 114)
جمعہ کے بعد باجماعت ظہر پڑھنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو نہ ہی یہ خوف ہو کہ عوام ظہر کے ساتھ جمعہ پڑھنا بند کر دیں گے تو وہاں پر باجماعت ظہر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں جہاں فتنے کا اندیشہ یا یہ ڈر ہو کہ عوام ظہر کی نماز کے ساتھ جمعہ بھی ترک کردیں گے تو وہاں تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ باجماعت ظہر قائم کرنے سے بچا جائے اور پابند نماز اور بغیر فتنہ انگیزی کے حق قبول کرنے والے افراد کو جمعہ کے ساتھ حکیمانہ طریقہ پر ظہر پڑھنے کی تلقین کی جائے اور اگر بغیر فتنہ انگیزی کے ظہر باجماعت کے لیے ماحول سازگار ہونا مظنون بہ ظن غالب ہو تو ظہر کی نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں۔فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے
گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالیٰ اعلم. انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جائے کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں.مزید ارشاد ہے
وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جائے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے. (ج ٣ص١٢٣-١٢٤)
فتاوی فیض الرسول میں ہے:
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز با جماعت پڑھنا واجب ہے. (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ص٤٠٦)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣
(6) اذن عام (بہار شریعت ح ١ج ١)
شہر یا شہر کے قائم مقام بڑے گاؤں یا قصبہ میں ہونا یعنی وہ جگہ جہاں متعدد کوچے اور بازار ہوں اوروہ ضلع یا پرگنہ ہو اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
فأما إذا لم يكن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس أن يجمع الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 261)
حدیث شریف میں ہے:
لا جمعة و لا تشريق إلا في مصر (درایہ ص ١٣١)
ہدایہ میں ہے
لا تجوز فی القری” (ج 1 ص 148)
دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں
در مختار میں ہے
تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ”
دیہات میں جمعہ کی نماز مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر صحیح عمل میں مشغول ہونا ہے، اس لیے کہ صحت جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے.
فتاوی فیض الرسول میں ہے:
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کریں گے کہ شاید اس طرح اللہ و رسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جائے گا”اسی صفحہ پر ہے
دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے، ھکذا قال الامام احمد رضا،(ص 406 ج1)
بہار شریعت میں ہے:ط
لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں (ج 1ص 763)
مذکورہ نصوص سے ثابت ہوا کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا ناجائز ہے، لیکن چوں کہ عوام نے قائم کرلی ہے اس لیے اب اسے روکا بھی نہیں جائے گا.
قرآن کریم میں ہے
أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (علق : 10/9)
دوسری جگہ ارشاد ہے
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا (البقرہ: 114)
جمعہ کے بعد باجماعت ظہر پڑھنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو نہ ہی یہ خوف ہو کہ عوام ظہر کے ساتھ جمعہ پڑھنا بند کر دیں گے تو وہاں پر باجماعت ظہر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں جہاں فتنے کا اندیشہ یا یہ ڈر ہو کہ عوام ظہر کی نماز کے ساتھ جمعہ بھی ترک کردیں گے تو وہاں تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ باجماعت ظہر قائم کرنے سے بچا جائے اور پابند نماز اور بغیر فتنہ انگیزی کے حق قبول کرنے والے افراد کو جمعہ کے ساتھ حکیمانہ طریقہ پر ظہر پڑھنے کی تلقین کی جائے اور اگر بغیر فتنہ انگیزی کے ظہر باجماعت کے لیے ماحول سازگار ہونا مظنون بہ ظن غالب ہو تو ظہر کی نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں۔فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے
گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالیٰ اعلم. انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جائے کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں.مزید ارشاد ہے
وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جائے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے. (ج ٣ص١٢٣-١٢٤)
فتاوی فیض الرسول میں ہے:
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز با جماعت پڑھنا واجب ہے. (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ص٤٠٦)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣