(سوال نمبر 6014)
کیا بیوی اور بیٹی کی موجودگی میں بھتیجے کو ترکہ سے حصہ ملے گا یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب بیوی اور بیٹی موجود ہے تو چچا کے ترکہ سے بھتیجے کو کوئی حصہ نہیں
یعنی کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کے رشتہ داروں میں صرف بھتیجی بھتیجہ ہوں تو اس کی میراث کے حقدار صرف بھتیجے ہوں گے، بھتیجیاں محروم ہوں گی مذکورہ صورت میں بھتیجا محروم ہوگا چونکہ اصل موجود ہیں
بخاری شریف میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں تک پہنچادو اور جو باقی رہ جائے وہ اس مرد کے لیے ہوگا جو قرابت میں مقدم ہو۔ ایسے مرد کو شریعت کے اصطلاح میں عصبہ کہا جاتا ہے۔ یعنی عصبہ ہر اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جو اصحاب فرائض سے مال بچنے کے بعد بقیہ سارا مال لے اور اکیلے ہونے کی صورت میں تمام مال کا حق دار بنے۔ اور بھتیجیوں کو شریعت نے ذوی الارحام میں شمار کیا ہے، عصبات میں نہیں۔ لہٰذا وہ چچا کی میراث سے محروم رہیں گی۔
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر۔ (بخاری : کتاب الفرائض، رقم : ۶۷۳۷)
و العصبۃ کل مین یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض و عند الانفراد یحرز جمیع المال۔ (السراجی : ۹)
العصبات النسبیۃ۔ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا ثم جزء جدہ۔ (السراجی : ۱۴)
فتاوی ہندیہ میں ہے
وباقی العصبات ینفرد بالمیراث ذکورھُم دون اخواتہم وھم اربعۃ ایضاً العم وابن العم وابن الاخ وابن المعتق الخ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ :٦/۴۵۱)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :-محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال.٢٨/٠٧/٢٠٢٣
کیا بیوی اور بیٹی کی موجودگی میں بھتیجے کو ترکہ سے حصہ ملے گا یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب بیوی اور بیٹی موجود ہے تو چچا کے ترکہ سے بھتیجے کو کوئی حصہ نہیں
یعنی کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کے رشتہ داروں میں صرف بھتیجی بھتیجہ ہوں تو اس کی میراث کے حقدار صرف بھتیجے ہوں گے، بھتیجیاں محروم ہوں گی مذکورہ صورت میں بھتیجا محروم ہوگا چونکہ اصل موجود ہیں
بخاری شریف میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں تک پہنچادو اور جو باقی رہ جائے وہ اس مرد کے لیے ہوگا جو قرابت میں مقدم ہو۔ ایسے مرد کو شریعت کے اصطلاح میں عصبہ کہا جاتا ہے۔ یعنی عصبہ ہر اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جو اصحاب فرائض سے مال بچنے کے بعد بقیہ سارا مال لے اور اکیلے ہونے کی صورت میں تمام مال کا حق دار بنے۔ اور بھتیجیوں کو شریعت نے ذوی الارحام میں شمار کیا ہے، عصبات میں نہیں۔ لہٰذا وہ چچا کی میراث سے محروم رہیں گی۔
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر۔ (بخاری : کتاب الفرائض، رقم : ۶۷۳۷)
و العصبۃ کل مین یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض و عند الانفراد یحرز جمیع المال۔ (السراجی : ۹)
العصبات النسبیۃ۔ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا ثم جزء جدہ۔ (السراجی : ۱۴)
فتاوی ہندیہ میں ہے
وباقی العصبات ینفرد بالمیراث ذکورھُم دون اخواتہم وھم اربعۃ ایضاً العم وابن العم وابن الاخ وابن المعتق الخ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ :٦/۴۵۱)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :-محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال.٢٨/٠٧/٢٠٢٣