Type Here to Get Search Results !

جب بیٹی رحمت ہے تو عورتوں کا زیادہ ہونا قرب قیامت کی علامات میں سے کیسے؟

 (سوال نمبر 4081)
جب بیٹی رحمت ہے تو عورتوں کا زیادہ ہونا قرب قیامت کی علامات میں سے کیسے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ 
قرآن پاک میں سورہ نساء میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔
بہت سی احادیث کی کتابوں اور مفکرین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جب قیامت کے مناظر قریب ہوں گے تو عورتوں کی تعداد مردوں کی بانسبت زیادہ ہوگی (مطلب عورتوں کی پیدائش زیادہ ہوگی ) دوسری طرف تو قرآن پاک اور حدیث میں بیٹیوں کو رحمت کا درجہ حاصل ہے ۔(اور یہاں تک بھی سنا ہے کہ جس گھر میں عورت کو اولاد کی صورت میں شادی کے بعد سب سے پہلے بیٹی جیسی نعمت عطا ہو اس عورت کو گھر کی خوش قسمتی سمجھی جاتی ہے )۔
ایک طرف رحمت اور دوسری طرف قیامت کی نشانی 
 سائلہ:-  بنت مقبول فیصل آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
مذکورہ باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے حدیث میں ہے زیادہ بچے دینے والی عورت سے نکاح کرو ۔اولاد کا زیادہ ہونا یہ برا نہیں ہے بلکہ برے اولاد کا زیادہ ہونا یہ برا ہے اسی طرح بیٹیوں کا زیادہ ہونا برا نہیں ہے پر بیٹیاں بری ہوجائے یہ برا ہے عورتوں کا زیادہ ہونا برا نہیں ہے عورتوں سے زنا کا بڑھنا برا ہے اور یہ علامات قیامت سے ہیں 
 اور علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ زنا عام ہوگا زنا سے بچے زیادہ پیدا ہوں گے ۔
علامات قیامت کے بابت ایک طویل حدیث ملاحظہ کریں ۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه فِي رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ لِي: یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا۔ أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَأَنْ یَکُوْنَ الْمَطْرُ قَيْظًا وَأَنْ تَفِيْضَ الأَشْرَارُ فَيْضًا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ یُکَذَّبَ الصَّادِقُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ یُخَوَّنَ الأَمِيْنُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْھَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکُوْنَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيْلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْیَا وَیُخْرَبُ عِمْرَانُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَی۔رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ
(أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 10/ 229، الرقم/ 10556، وأیضًا في المعجم الأوسط، 5/ 127، الرقم/ 4861۔)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولاد (نافرمانی کے سبب والدین کے لیے) غم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا،
’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن (نیک اور دیانت دار آدمی) اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اُن کے منبر عالی شان ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ (معاشرے میں) پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔
اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
آج موجودہ دور میں پائی جانے والی قیامت کی نشاننیاں 
1 / جہالت عام ہو جائے گی:آج کل درحقیقت جہالت کا دور دورہ ہے، لوگ علمِ دین سے بالکل ناواقف اور دنیاوی علوم و فنون کے دلدادہ ہوتے جارہے ہیں، مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے، ہمارے ملک پاکستان کی آبادی کا 52 فیصد حصّہ خاتون پر مشتمل ہے، تیز رفتار گاڑیوں، تیز ترین سواری اور تیز ترین مواصلات کے باوجود ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہی کہتا نظر آتا ہے: میرے پاس علمِ دین سیکھنے کے لئے وقت نہیں۔
2۔/ زکوٰۃ ادا کرنا لوگوں پر بھاری ہوگا:زکوٰۃ ادا کرنا بہت دشوار ہے، لوگ زکوٰۃ نہ دینے کے لئے نئے نئے حربے استعمال کرتے ہیں،جان بوجھ کر زکوٰۃ کا انکار کرکے دینِ اسلام کے منکر بن رہے ہیں، لوگ علمِ دین تو حاصل کرتے ہیں، مگر دین کی خاطر نہیں، صرف دنیاوی دولت کمانے، کسی بڑے منصب کو اپنانے اور جاہ و حشمت چاہنے کے لئے، اللہ پاک کی رضا کے لئے نہیں۔
3/ ماں باپ کی نافرمانی:مرد آجکل ماں باپ سے بڑھ کر اپنی بیوی کی بات کو مانتا ہے، ہر عورت کی خواہش ہے کہ اُس کا شوہر صرف اُسی کی بات کو اہمیت دے، لوگ والدین سے علیحدہ اپنا گھر بسا لیتے ہیں، اپنے احباب سے میل ملاپ اور تعلقات رکھتے ہیں، مگر والدین سے دور رہتے ہیں۔
4/ گانے باجے کی کثرت ہوگی:آج کل گانے باجے کی کثرت ہمیں قربِ قیامت کا پیغام دے رہی ہے، گھر گھر میں فلمی گانوں کا رواج ہے، یہاں تک کہ ہسپتال جہاں لوگ مختلف امراض میں مبتلا زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں، وہاں بھی ٹی وی اور کیبل نیٹ ورک کا رواج بڑھ رہا ہے،مریضوں کو توبہ استغفار اوراوراد و وظائف کی تلقین کی بجائے فلمی گانے سننے اور فلمیں ڈرامے دیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
5/ لوگ نمازیں قضا کریں گے:معراج پر جانے والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ لوگ نماز قضا کریں گے،آج نمازیں قضا کرنے کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، آج ہمارے معاشرے میں سُستی کی وجہ سے آئے دن نمازیں قضا کر دی جاتی ہیں، ایک بہت بڑی تعداد ہے، جو نمازیں قضا کر دیتی ہے اور انہیں اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی۔حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں جو دنیا میں رہ کر قیامت کے بارے میں زیادہ غور و فکر کرے گا، وہ ان ہولناکیوں سے زیادہ محفوظ رہے گا۔اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
بیٹیوں کے فضائِل پر 4 اَحادیث
اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی ، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :   
( 1 )بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو ، بےشک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں
( 2 ) ایک حدیث شریف میں ہے : جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ پاک  اس شَخْص کو جَنّت میں داخِل فرمائے گا۔( 3 )مسلم شریف کی روایت ہے : جس شَخْص پر بیٹیوں کی پَرْورِش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک  ( یعنی اچھا برتاؤ )  کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنّم سے آڑ بن جائیں گی۔
( 4 ) ایک اَور حدیث شریف میں رحمتِ عالَم ، نورِ  مُجَسَّمْ  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے بیٹیوں پر رحم و کرم کرنے کا دَرْس دیتے ہوئے فرمایا جو بازار سے اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز لائے تو وہ ان پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہئے کہ بیٹیوں سے ابتدا کرے
 کیونکہ جو بیٹیوں کو خوش کرے وہ خوفِ خُدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو خوفِ خُدا میں روئے اللہ پاک اسے جہنّم پر حرام فرما دیتا 
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area