(سوال نمبر 4082)
روپیہ سے ڈالر خریدنا اور مہنگا کر کے بیچنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
جو لوگ کرنسی خریدتے ہیں ڈالرز وغیرہ جی کرنسی مہنگی ہوتی ہے تو بیچتے ہیں تو اس صورت میں انہیں منافع ہوتا ہے تو کیا یہ جائز، ہے یا نہیں؟؟
گروپ کن فیکون سائلہ:- صدف لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ صورت جائز ہے ہاں یہ نقد ہوں ادھار میں جائز نہیں ہے ۔
تفصیل یہ ہے کہ کرنسی نوٹ ایک مُلک کے ہوں تو بلاشبہ ایک ہی جنس ہیں اور اگر جدا جدا ملک کے ہوں تب بھی ایک ہی جنس ہونے کا قول ہمارے نزدیک معتمد ہے جیسا کہ بہت سے معتمد فقہائے کرام بلکہ ہند مبارک پور اشرفیہ کی مجلس شرعی اور مجلس شرعی بریلی شریف کا طے شدہ فیصلہ بھی یہی ہے لہذا مطلقا کرنسی نوٹ چاہے ایک ملک کے ہوں یا جدا جدا ،ایک ہی جنس ہوتے ہیں۔نیز کرنسی نوٹ قدَری چیز نہیں یعنی اسے ناپا یا تولا نہیں جاتا کہ مکیلی یا موزونی ہو بلکہ عددی یعنی گِن کر دی جانے والی چیز ہےاور قاعدہ شرعیہ ہے کہ خرید و فروخت میں دو چیزوں کے مابین سود کی علت ان میں قدَر و جنس کا پایا جانا ہے،قدر سے مراد مکیلی یا موزونی ہونا ہے۔اگر قدَر و جنس دونوں پائی جائیں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حرام ہوتے ہیں اور اگر قدرو جنس میں سے ایک چیز پائی جائے جبکہ دوسری موجود نہ ہو، تو کمی بیشی جائز اور ادھار حرام ہوتا ہے اور اگر دونوں چیزیں نہ پائی جائیں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے،لہٰذا کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز ہے، جبکہ ادھا ر جائز نہیں۔آپ نقد ہی سودا کرتے ہیں ادھار نہیں کرتے اس لیے شرعا جائز ہے کوئی حرج نہیں
ہدایہ میں ہے
یجوز بیع الفلس بالفلسین بأعیانھما
یعنی ایک معین سکے کی بیع دو معین سکوں کے ساتھ جائز ہے۔(الھدایہ،ج 2 ، الجز الثالث ،ص 63،دار احیاء التراث العربی،بیروت)
اسی میں ہے
إذا وجد أحدھما و عدم الآخر حل التفاضل و حرم النساءمثل أن یسلم ھرویاً فی ھروی أو حنطۃ فی شعیر ‘‘ یعنی جب سود کی دونوں علتوں (قدر و جنس) میں سے ایک پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے،تو زیادتی جائز ہے اور ادھار حرام ہے ،جیسے ہرات کے بنے ہوئے کپڑے ہرات ہی کے کپڑے کے بدلے بیچنا یا گندم کو جَو کے بدلے بیچنا۔ (ایضاً،ص62)
فتاوی رضویہ میں ہے
فاقول:اولا نص علماؤنا قاطبۃ ان علۃ حرمۃ الربا القدر المعھود بکیل ا ووزن مع الجنس فان وجداحرم الفضل والنسأ وان عدما حلاوان وجد احدھما حل الفضل و حرم النسأ وھذہ قاعدۃ غیر منخرمۃ وعلیھا تدورجمیع فروع الباب فاقول:
(تو میں کہتا ہوں) اولاً ہمارے جمیع علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی کہ حرمت ربا کی علت وہ خاص اندازہ یعنی ناپ یا تول ہے ۔ اتحاد جنس کے ساتھ، تو اگر قدر و جنس دونوں پائی جائیں ، تو بیشی اور ادھار دونوں حرام ہیں اور اگر وہ دونوں نہ پائی جائیں ، تو حلال ہیں اور اگر دونوں میں سے ایک پائی جائے، تو بیشی حلال اور ادھار حرام ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے جو کہیں منتقض نہیں اور بابِ ربا کے جمیع مسائل اسی پر دائر ہیں۔(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 446،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ایک اور مقام پر نوٹ میں قدَر نہ ہونے بلکہ عددی ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں ’اتحاد جنس سے تو تفاضل حرام نہیں ہوجاتا، اتحاد قدر بھی تو لازم ہے، نوٹ سرے سے قدر ہی نہیں رکھتا کہ نہ مکیل ہے، نہ موزون، بلکہ معدود ہے (فتاوی رضویہ،ج 17،ص 527،رضا فاؤنڈیش۔،لاھور)
مجلس شرعی بریلی کے فقہی سیمنیار کے فیصلے میں ہے
ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوعِ واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقویم کی قلت و کثرت کا ہے، نہ کہ نوع کا،یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں۔ (مجلس شرعی بریلی کا پانچواں فقھی سیمینار)
مجلس شرعی اشرفیہ مبارک پور کے فیصلہ میں ہے۔دو ملکوں کی کرنسیاں اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہیں اور مقصود کے لحاظ سے دونوں ہی ثمن اصطلاحی ہیں،اس لیے دونوں کی جنس ایک ہے۔(چوتھا فقھی سیمینار،مجلس شرعی مبارکپور ،30 مئی 2004)
اسی میں کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز، جبکہ ادھا ر ناجائز ہونے سے متعلق ہے:’’دو ملکوں یا ایک ہی ملک کی کرنسیوں کی باہم خرید و فروخت صرف نقد جائز ہے گو کہ کمی بیشی کے ساتھ ہو اور اگر کسی طرف ادھار ہو تو ناجائز ہے کہ یہ جنس کے بدلہ جنس کی ادھار بیع ہے جو ایک طرح کا سود (ربا النسیئہ) ہے۔(ایضاً) اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023
روپیہ سے ڈالر خریدنا اور مہنگا کر کے بیچنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
جو لوگ کرنسی خریدتے ہیں ڈالرز وغیرہ جی کرنسی مہنگی ہوتی ہے تو بیچتے ہیں تو اس صورت میں انہیں منافع ہوتا ہے تو کیا یہ جائز، ہے یا نہیں؟؟
گروپ کن فیکون سائلہ:- صدف لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ صورت جائز ہے ہاں یہ نقد ہوں ادھار میں جائز نہیں ہے ۔
تفصیل یہ ہے کہ کرنسی نوٹ ایک مُلک کے ہوں تو بلاشبہ ایک ہی جنس ہیں اور اگر جدا جدا ملک کے ہوں تب بھی ایک ہی جنس ہونے کا قول ہمارے نزدیک معتمد ہے جیسا کہ بہت سے معتمد فقہائے کرام بلکہ ہند مبارک پور اشرفیہ کی مجلس شرعی اور مجلس شرعی بریلی شریف کا طے شدہ فیصلہ بھی یہی ہے لہذا مطلقا کرنسی نوٹ چاہے ایک ملک کے ہوں یا جدا جدا ،ایک ہی جنس ہوتے ہیں۔نیز کرنسی نوٹ قدَری چیز نہیں یعنی اسے ناپا یا تولا نہیں جاتا کہ مکیلی یا موزونی ہو بلکہ عددی یعنی گِن کر دی جانے والی چیز ہےاور قاعدہ شرعیہ ہے کہ خرید و فروخت میں دو چیزوں کے مابین سود کی علت ان میں قدَر و جنس کا پایا جانا ہے،قدر سے مراد مکیلی یا موزونی ہونا ہے۔اگر قدَر و جنس دونوں پائی جائیں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حرام ہوتے ہیں اور اگر قدرو جنس میں سے ایک چیز پائی جائے جبکہ دوسری موجود نہ ہو، تو کمی بیشی جائز اور ادھار حرام ہوتا ہے اور اگر دونوں چیزیں نہ پائی جائیں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے،لہٰذا کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز ہے، جبکہ ادھا ر جائز نہیں۔آپ نقد ہی سودا کرتے ہیں ادھار نہیں کرتے اس لیے شرعا جائز ہے کوئی حرج نہیں
ہدایہ میں ہے
یجوز بیع الفلس بالفلسین بأعیانھما
یعنی ایک معین سکے کی بیع دو معین سکوں کے ساتھ جائز ہے۔(الھدایہ،ج 2 ، الجز الثالث ،ص 63،دار احیاء التراث العربی،بیروت)
اسی میں ہے
إذا وجد أحدھما و عدم الآخر حل التفاضل و حرم النساءمثل أن یسلم ھرویاً فی ھروی أو حنطۃ فی شعیر ‘‘ یعنی جب سود کی دونوں علتوں (قدر و جنس) میں سے ایک پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے،تو زیادتی جائز ہے اور ادھار حرام ہے ،جیسے ہرات کے بنے ہوئے کپڑے ہرات ہی کے کپڑے کے بدلے بیچنا یا گندم کو جَو کے بدلے بیچنا۔ (ایضاً،ص62)
فتاوی رضویہ میں ہے
فاقول:اولا نص علماؤنا قاطبۃ ان علۃ حرمۃ الربا القدر المعھود بکیل ا ووزن مع الجنس فان وجداحرم الفضل والنسأ وان عدما حلاوان وجد احدھما حل الفضل و حرم النسأ وھذہ قاعدۃ غیر منخرمۃ وعلیھا تدورجمیع فروع الباب فاقول:
(تو میں کہتا ہوں) اولاً ہمارے جمیع علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی کہ حرمت ربا کی علت وہ خاص اندازہ یعنی ناپ یا تول ہے ۔ اتحاد جنس کے ساتھ، تو اگر قدر و جنس دونوں پائی جائیں ، تو بیشی اور ادھار دونوں حرام ہیں اور اگر وہ دونوں نہ پائی جائیں ، تو حلال ہیں اور اگر دونوں میں سے ایک پائی جائے، تو بیشی حلال اور ادھار حرام ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے جو کہیں منتقض نہیں اور بابِ ربا کے جمیع مسائل اسی پر دائر ہیں۔(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 446،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ایک اور مقام پر نوٹ میں قدَر نہ ہونے بلکہ عددی ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں ’اتحاد جنس سے تو تفاضل حرام نہیں ہوجاتا، اتحاد قدر بھی تو لازم ہے، نوٹ سرے سے قدر ہی نہیں رکھتا کہ نہ مکیل ہے، نہ موزون، بلکہ معدود ہے (فتاوی رضویہ،ج 17،ص 527،رضا فاؤنڈیش۔،لاھور)
مجلس شرعی بریلی کے فقہی سیمنیار کے فیصلے میں ہے
ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوعِ واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقویم کی قلت و کثرت کا ہے، نہ کہ نوع کا،یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں۔ (مجلس شرعی بریلی کا پانچواں فقھی سیمینار)
مجلس شرعی اشرفیہ مبارک پور کے فیصلہ میں ہے۔دو ملکوں کی کرنسیاں اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہیں اور مقصود کے لحاظ سے دونوں ہی ثمن اصطلاحی ہیں،اس لیے دونوں کی جنس ایک ہے۔(چوتھا فقھی سیمینار،مجلس شرعی مبارکپور ،30 مئی 2004)
اسی میں کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز، جبکہ ادھا ر ناجائز ہونے سے متعلق ہے:’’دو ملکوں یا ایک ہی ملک کی کرنسیوں کی باہم خرید و فروخت صرف نقد جائز ہے گو کہ کمی بیشی کے ساتھ ہو اور اگر کسی طرف ادھار ہو تو ناجائز ہے کہ یہ جنس کے بدلہ جنس کی ادھار بیع ہے جو ایک طرح کا سود (ربا النسیئہ) ہے۔(ایضاً) اسی طرح فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023