مختصر سوانح حیات
حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسمِ گرامی: سید علی۔
کنیت: ابوالحسن۔
لقب: داتا گنج بخش، مخدوم الامم۔
سلسلہ نسب: حضرت مخدوم علی بن عثمان بن سید علی بن عبدالرحمن بن شاہ شجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سید زید بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
ولادت باسعادت: سالِ ولادت کسی قدیم کتب میں درج نہیں ہے۔مؤلفین و مؤرخین نے ظن و تخمین سے 400ھ/401ھ لکھا ہے۔ اس کو یقینی نہیں کہا جا سکتا۔
مقامِ ولادت: حضرت کا وطن اصلی افغانستان کا شہر غزنی ہے۔ "جلابی، ہجویری" اسلئے کہلاتے ہیں کہ یہ دونوں محلے "غزنی" کے ہیں۔ آپ کے والدین کی قبریں غزنی میں ہیں۔ آپ کے خاندان کے تمام افراد صاحب زہد و تقویٰ تھے۔
تحصیلِ علم: حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ علومِ ظاہری و باطنی کے بحرِ ذخار تھے۔ آپ نے صرف "خراسان" میں تین سو علماء و مشائخ سے استفادہ کیا۔حضرت شیخ ابوالقاسم گرگانی علیہ الرحمہ اور حضرت شیخ ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمہ، اور ان کے علاوہ حضرت خضر علیہ السلام سے بھی خوب استفادہ کیا۔
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ جنیدیہ میں حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ کا شجرۂ طریقت دس واسطوں سے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ تک پہنچتا ہے۔
سیرت و خصائص: شیخ العالم، عارف باللہ، قدوۂ اہلِ طریقت، کاشفِ اسرارِ حقیقت، مخدوم الامم حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ۔ اس نائب رسول مقبول ﷺ نے قیامِ لاہور کے دوران ہزارہا بُت پرست کفّار کو کلمہ توحید پڑھا کر اُن کے سینوں کو نورِ اسلام سے منوّر کیا، اور سینکڑوں خداؤں کو پوجنے والوں کو صرف ایک خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مائل کیا، اور لا تعداد گم گشتگان بادیہ ضلالت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا، اور کتنے ہی خوش نصیبوں کو اپنی نظرِ کیمیا اثر کی بدولت ولایت کے بلند پایہ مراتب پر فائز کیا۔
سلطان الہند فرماتے ہیں:
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما
یہ درست ہے کہ سلطان محمود کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہاں، مسلمان ایک "حاکم قوم" کی حیثیت سے رہنے لگے تھے اور یہاں کے کفّار مسلم عوام سے بظاہر مرعوب ضرور تھے، لیکن ان کے قلوب مسلمان فاتحین کے ساتھ نہیں تھے، اور وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ مگر یہاں تشریف لانے والے صوفیائے کرام بالخصوص حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ کے درودِ مسعود کے بعد یہاں کی مقامی آبادی میں سے لا تعداد لوگ ان کی تبلیغ کے سبب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ چنانچہ یہاں کے باشندوں میں سے ایک کثیر گروہ کی دلی ہمدردیاں مسلم فاتحین کے ساتھ ہو گئیں۔ نظریہ و طنیت، خاک میں مل گیا اور دو قومی نظریۂ کی بنیادیں رکھ دی گئیں، اور بعد میں آنے والے صوفیہ کرام کی مساعیِ جمیلہ سے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا جس سے مسلمانوں کی حکومت استحکام پکڑتی گئی۔ فاتحین نے کفار کو تیر و سنان سے زیر کیا تو نائبینِ مصطفیٰﷺ نے انہیں تیرِ نظر سے خدا ئے واحد کا مطیع و منقاد بنایا۔
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے حضرت داتا صاحب قدس سرہ کی عظیم الشان دینی خدمات اور روحانی عظمت کو چند شعروں میں جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ ان ہی کا حصّہ ہے، ذیل میں ان کے وجد آفریں اشعار ملاحظہ ہوں
سید ہجویر مخدومِ اُمم
بندہای کوہسار آساں گسیخت
عہد فاروق ازجمالش تازہ شد
پاسبانِ عزّت ام الکتاب
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
عاشق وہم قاصدِ طیار عشق
مرقد پیرِ سنجر راحرم
در زمینِ ہند تخمِ سجدہ ریخت
حق زحرف او بلند آوازہ شد
از نگاہش خانہ باطل خراب
صبح ما ازمہر تا بندہ گشت
ز جبینش آشکار اسرار عشق
حضرت شیخ مجدد الف ثانی سرہندی قدس سرہٗ نے لاہور کو جو قطب ارشاد کا درجہ دیا ہے، اصل میں یہ اُسی قطب الاقطاب (علی ہجویری) کو خراجِ تحسین ادا کیا ہے۔
حضرت شیخ مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "فقیر کے نزدیک یہ شہر لاہور تمام ہندوستان کے شہروں میں قطب ارشاد کی طرح ہے، اس شہر کی خیر و برکت تمام بلادِ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ "
وصال: آپ کا وصال 9 محرم الحرام 465ھ بمطابق 1072ء کو ہوا۔ مزار پُر انوار لاہور میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: مقدمہ کشف المحجوب: 11۔ خزینۃ الاصفیاء۔ مکتوبات،دفتر اول۔
اسمِ گرامی: سید علی۔
کنیت: ابوالحسن۔
لقب: داتا گنج بخش، مخدوم الامم۔
سلسلہ نسب: حضرت مخدوم علی بن عثمان بن سید علی بن عبدالرحمن بن شاہ شجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سید زید بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
ولادت باسعادت: سالِ ولادت کسی قدیم کتب میں درج نہیں ہے۔مؤلفین و مؤرخین نے ظن و تخمین سے 400ھ/401ھ لکھا ہے۔ اس کو یقینی نہیں کہا جا سکتا۔
مقامِ ولادت: حضرت کا وطن اصلی افغانستان کا شہر غزنی ہے۔ "جلابی، ہجویری" اسلئے کہلاتے ہیں کہ یہ دونوں محلے "غزنی" کے ہیں۔ آپ کے والدین کی قبریں غزنی میں ہیں۔ آپ کے خاندان کے تمام افراد صاحب زہد و تقویٰ تھے۔
تحصیلِ علم: حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ علومِ ظاہری و باطنی کے بحرِ ذخار تھے۔ آپ نے صرف "خراسان" میں تین سو علماء و مشائخ سے استفادہ کیا۔حضرت شیخ ابوالقاسم گرگانی علیہ الرحمہ اور حضرت شیخ ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمہ، اور ان کے علاوہ حضرت خضر علیہ السلام سے بھی خوب استفادہ کیا۔
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ جنیدیہ میں حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ کا شجرۂ طریقت دس واسطوں سے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ تک پہنچتا ہے۔
سیرت و خصائص: شیخ العالم، عارف باللہ، قدوۂ اہلِ طریقت، کاشفِ اسرارِ حقیقت، مخدوم الامم حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ۔ اس نائب رسول مقبول ﷺ نے قیامِ لاہور کے دوران ہزارہا بُت پرست کفّار کو کلمہ توحید پڑھا کر اُن کے سینوں کو نورِ اسلام سے منوّر کیا، اور سینکڑوں خداؤں کو پوجنے والوں کو صرف ایک خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مائل کیا، اور لا تعداد گم گشتگان بادیہ ضلالت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا، اور کتنے ہی خوش نصیبوں کو اپنی نظرِ کیمیا اثر کی بدولت ولایت کے بلند پایہ مراتب پر فائز کیا۔
سلطان الہند فرماتے ہیں:
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما
یہ درست ہے کہ سلطان محمود کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہاں، مسلمان ایک "حاکم قوم" کی حیثیت سے رہنے لگے تھے اور یہاں کے کفّار مسلم عوام سے بظاہر مرعوب ضرور تھے، لیکن ان کے قلوب مسلمان فاتحین کے ساتھ نہیں تھے، اور وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ مگر یہاں تشریف لانے والے صوفیائے کرام بالخصوص حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ کے درودِ مسعود کے بعد یہاں کی مقامی آبادی میں سے لا تعداد لوگ ان کی تبلیغ کے سبب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ چنانچہ یہاں کے باشندوں میں سے ایک کثیر گروہ کی دلی ہمدردیاں مسلم فاتحین کے ساتھ ہو گئیں۔ نظریہ و طنیت، خاک میں مل گیا اور دو قومی نظریۂ کی بنیادیں رکھ دی گئیں، اور بعد میں آنے والے صوفیہ کرام کی مساعیِ جمیلہ سے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا جس سے مسلمانوں کی حکومت استحکام پکڑتی گئی۔ فاتحین نے کفار کو تیر و سنان سے زیر کیا تو نائبینِ مصطفیٰﷺ نے انہیں تیرِ نظر سے خدا ئے واحد کا مطیع و منقاد بنایا۔
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے حضرت داتا صاحب قدس سرہ کی عظیم الشان دینی خدمات اور روحانی عظمت کو چند شعروں میں جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ ان ہی کا حصّہ ہے، ذیل میں ان کے وجد آفریں اشعار ملاحظہ ہوں
سید ہجویر مخدومِ اُمم
بندہای کوہسار آساں گسیخت
عہد فاروق ازجمالش تازہ شد
پاسبانِ عزّت ام الکتاب
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
عاشق وہم قاصدِ طیار عشق
مرقد پیرِ سنجر راحرم
در زمینِ ہند تخمِ سجدہ ریخت
حق زحرف او بلند آوازہ شد
از نگاہش خانہ باطل خراب
صبح ما ازمہر تا بندہ گشت
ز جبینش آشکار اسرار عشق
حضرت شیخ مجدد الف ثانی سرہندی قدس سرہٗ نے لاہور کو جو قطب ارشاد کا درجہ دیا ہے، اصل میں یہ اُسی قطب الاقطاب (علی ہجویری) کو خراجِ تحسین ادا کیا ہے۔
حضرت شیخ مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "فقیر کے نزدیک یہ شہر لاہور تمام ہندوستان کے شہروں میں قطب ارشاد کی طرح ہے، اس شہر کی خیر و برکت تمام بلادِ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ "
وصال: آپ کا وصال 9 محرم الحرام 465ھ بمطابق 1072ء کو ہوا۔ مزار پُر انوار لاہور میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: مقدمہ کشف المحجوب: 11۔ خزینۃ الاصفیاء۔ مکتوبات،دفتر اول۔