Type Here to Get Search Results !

گالی اور اسلام

 گالی اور اسلام
 بسم الله الرحمن الرحيم
علی الصباح حنفی صاحب کی ایک وائس سننے کو ملی ، اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وائس میں کہا گیا ہے، تو یہ حرکت غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہے شریعت محمدی کسی کو کسی کےلئے کبھی بھی اس فعل سوء کی اجازت نہیں دیتی، 
حنفی صاحب کی بات میں اگر دم نہیں ہے تو آپ دالائل و براہین سے ثابت کریں اور اپنے قول سے رجوع اور دشنام طرازی سے گریز کریں، اور آئندہ بھی اس رویہ و روش سے اجتناب کی عہد کریں یہی دین اسلام اور شیر نیپال علیہ الرحمہ کا طریق ہے اس طریق سے ہٹ کر گویا دین اسلام کا مجرم اور شیر نیپال علیہ الرحمہ کے بےوفائوں میں اپنا نام درج کرا رہیں ہیں ۔اور حنفی صاحب حق ہر ہیں اس دلیل سے کہ انہوں نے گالی کا جواب دشنام طرازی سے نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔
حنفی صاحب سے بھی عرض کررہاہوں کہ کون کیا بنا اس معمہ کو ترک کریں اور بھی دیگر کام ہے اس جانب توجہ مبذول کریں ۔
کیونکہ شیطانی ذہن سے لبریز کچھ لوگ نہ کچھ کرتے ہیں اور نہ کچھ کرنے دیتے ہیں اس لئے اس پھندے میں پڑنے سے تضییع اوقات کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں فریقین میں سے جس فریق کی دلائل کمزور ہوتی ہے وہ آئو فائو بکنا شروع کر دیتے ہیں ۔
پھر انسان نفس پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہو کر بہت کچھ کر گزرتے ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی ۔ 
قرآن و حدیث، روایات اور علماء دین کی سیرت کے پیش نظر شرع مقدس اسلام کے مطابق گالی دینا اور سبّ و شتم ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔
(بخاري، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر، 1 / 27، الرقم : 48)
آقا علیہ السلام نے مزید فرمایا ہے کہ:
المستبان شیطانان یتها تران ویتکاذبان
 آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
ابن حبان، الصحیح، 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة
اور گالیاں دینا منافقت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.
چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے۔‘‘
(بخاري، الصحيح، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، 1: 21، رقم: 34)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ گالی گلوچ کرنا اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اور گندی گالیاں دینا تو بدرجہ اولیٰ سخت منع اور گناہ كبيرہ ہے۔ 
ذہن میں اور بھی کئی چیزیں گردش کر رہی ہے پر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔کہ برائے عقلمند اشارہ کافی است 
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
22/11/2020

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area