Type Here to Get Search Results !

من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کا کیا مطلب؟

 (سوال نمبر 197)
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کا کیا مطلب؟
___________________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے 
 حدیثِ مبارکہ میں ہے من زار قبری وجبت لہ شفاعتی اس حدیث پاک کے لحاظ سے  
جو لوگ حج یا عمرہ وغیرہ کرنے کے لیے جاتے ہیں تو انکو صرف مواجہ شریف دیکھائی جاتی ہے تو کیا اس صورت مسئولہ میں دیکھنے والے شخص اس حدیث کے مصداق قرار دیے جائینگے۔ یا نہیں؟ نیز اس حدیث کے مصداق قرار دیے جانے کا کیا صورت حال ہے؟ 
سائل۔ نعیم انصاری مقام کٹی۔ ضلع مہوتری نیپال
___________________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
مسلئہ مذکورہ میں مسجد نبوی میں مشرق کی طرف سے مواجہہ عالیہ میں حاضری دینے سے زیر قندیل چاندی کی کیل کے سامنے جو حجرہ کی جنوبی دیوار میں چہرہ انور کے مقابل لگی ہے کم از کم چار ہاتھ کا فاصلہ اس سے زیادہ قریب نہ جائے قبر انور کو ہاتھ لگانا تو درکنار جالی شریف کو ہاتھ لگانا بھی خلاف ادب ہے، مواجہہ تک جانے کی اب بھی سہولت موجود ہے،بالخصوص مسجد نبوی سے خروج کے وقت اسی ہوکے گزرنا ہوتا ہے،شرطہ کی جانب سے بھی مواجہہ کے پاس کچھ دیر رکنے کی اجازت ہے، جب میں گیا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا میں اپنا تجربہ قلم بند کیا ہوں ۔۔پس وہ شخص جسے مقام مواجہہ حاصل ہوجائے یقینا اسے من زار قبری الی آخر ہ۔۔۔۔میں جو فصیلت وارد ہے اسے حاصل ہوگی ۔ اب اس بابت کچھ تفصیلی وضاحت مناسب ہے ۔  
  اﷲ عزوجل فرماتا ہے: 
 وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا. (پ ۵ ، النساء آیت ٦٤) 
اگر لوگ اپنی جانوں پرظلم کریں اور تمھارے حضور حاضر ہو کر اﷲ عزوجل سے مغفرت طلب کریں،اور رسول بھی اُن کے لیے استغفار کریں   تو اﷲ عزوجل کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پائیں گے۔
عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میری قبر کی زیارت کرے، اس کے لیے میری شفاعت واجب۔
(سنن الدار قطني ،کتاب الحج، باب المواقیت، الحدیث  ۲۶۶۹ ج ۲ ص ۳۵۱)
اُنھیں سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’جو میری زیارت کو آئے سوا میری زیارت کے اور کسی حاجت کے لیے نہ آیا تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اُس کا شفیع بنوں۔
( المعجم الکبیر للطبراني، باب العین، الحدیث، ۱۳۱۴۹،ج ۱۲ ص ۲۲۵)
حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوت قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادت دینی و دنیوی کے لیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لیے وسیلہ کرے۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِءٍ مَّانَویٰ  ۔ 
(صحیح البخاری ،کتاب بدء الوحی  الحدیث ۱ ،ج ۱ ص ۵۔)
اعمال کامدار نیت پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہ ہے، جو اُس نے نیت کی۔  
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
 کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها، خادم دارالافتاء البرقی،سنی شرعی بورڈ آف نیپال،۔۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area